جموں و کشمیر، جو اپنی قدرتی خوبصورتی، سرسبز و شاداب وادیوں اور دلکش مناظر کی وجہ سے پورے ہندوستان اور بدیش کی توجہ اپنی طرف مبذول کر رہا ہے، ‘فنکاروں کے گھر’ کی ایک اور شناخت بنا رہا ہے۔ فنکار اپنی صلاحیتوں اور منفرد انداز اور بلاشبہ ’آواز‘ سے سب کے ذہنوں میں اپنا نام نقش کر رہے ہیں۔
وادی سے تعلق رکھنے والے فنکاروں میں اشفاق کاوا، عابد علی اور آصف فیض میر شامل ہیں۔اشفاق کاوا بانڈی پورہ، کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی ایک نوجوان گلوکار ہیں۔ اشفاق نے بہت کم وقت میں نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی صلاحیتوں اور آواز کے جوہر اس طرح دکھائے کہ ان کی مسحور کن آواز سامعین کے لیے سکون کا باعث بن گئی۔
اشفاق کاوا نے 2000 کے لگ بھگ اپنے موسیقی کے سفر کا آغاز کیا، 18 سال کی عمر میں یوٹیوب پر ان کے ایک گانے “بال یارو” نے انہیں راتوں رات انٹرنیٹ پر سنسنی بنا دیا اور پھر ایک کے بعد ایک اپنے مدھر سے لوگوں کے دل جیت لیے۔
آواز اور لازوال ہنر، اور بہت کم وقت میں، نہ صرف کشمیر بلکہ پوری دنیا میں، ایک معروف گلوکار کے طور پر۔اشفاق کاوا نے اپنی صلاحیتوں کو صرف گلوکاری تک محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے نغمہ نگاری اور اداکاری میں بھی اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ آج اشفاق کاوا کے یوٹیوب پر لاکھوں سبسکرائبرز ہیں اور ان کے چاہنے والوں کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔
اس کا ثبوت ان کی بہترین صلاحیتوں، شاندار اداکاری اور سریلی نغمہ نگاری ہیں۔صفا قدل شہر خاص سے تعلق رکھنے والے عابد علی کا شمار بھی ان گلوکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے موسیقی کو اپنی پہچان بنانے کا فیصلہ کیا اور آج ان کی منفرد موسیقی ہے۔
عابد علی کا موسیقی کا سفر بچپن میں شروع ہوا لیکن انہیں اپنی صلاحیتوں پر اس وقت اعتماد پیدا ہوا جب انہوں نے کشمیر کے ایک مشہور سنگنگ ریئلٹی شو ‘ملے سر’ میں فرسٹ کلاس کا ٹائٹل جیتا تھا۔عابد علی کا کہنا ہے کہ پہلے تو موسیقی ان کا شوق تھا لیکن مائل سر جیتنے کے بعد انہیں اپنی صلاحیتوں کا پتہ چلا اور پھر انہوں نے موسیقی کو اپنی شناخت بنانے کا فیصلہ کیا۔
پھر دھیرے دھیرے سال 2011 میں انہوں نے ‘ چھونا ہے اسمان’ موسیقی کا مقابلہ جیتا اور اسی طرح 2012 میں ‘ انمول رتن’ جیسے بڑے پلیٹ فارم پر پہلا اعزاز حاصل کیا اور پھر دھیرے دھیرے انہوں نے بڑے ایوارڈز اپنے نام کر لیے۔
عابد نے اپنی موسیقی اور آواز کو شہروں میں پھیلا دیا۔ عابد علی نے اپنی آواز کو نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر بھی مشہور کیا۔عابد علی نے ’میوزک تھیراپی‘ کے نام سے ایک ایونٹ مینجمنٹ کمپنی شروع کی ہے جس کے تحت وہ وادی کشمیر سے وابستہ مختلف گلوکاروں اور موسیقی کی انواع کو تاج اور زالات جیسے بڑے ہوٹلوں میں لائم لائٹ میں لانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
عابد علی کہتے ہیں،’’میں وادی کشمیر میں موسیقی کے بیج کو پوری دنیا میں پہچانا جانا چاہتا ہوں، یہ میری زندگی کا بنیادی مقصد اور میری زندگی کی سب سے بڑی فتح ہوگی۔‘‘ایک اور گلوکار آصف فیض میر ضلع سری نگر کے لال بازار سے تعلق رکھنے والے آصف فیض میر وادی کشمیر کے واحد موسیقار ہیں جنہوں نے گٹار کو اپنی پہچان بنایا ہے۔
اس نے نہ صرف کشمیر بلکہ پوری دنیا میں ایک الگ پہچان دی ہے۔ آصف کا کہنا ہے کہ انہوں نے بچپن میں ہی موسیقار بننے کا فیصلہ کر لیا تھا کیونکہ گٹار کے علاوہ دنیا کی کوئی چیز ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتی تھی لیکن اپنے خاندان اور معاشرے کے خوف کی وجہ سے وہ کھل کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار نہ کر سکے۔ وہ گھر والوں کو بتائے بغیر چھپ چھپ کر گٹار سیکھنے جایا کرتا تھا اور مقابلوں میں بھی حصہ لے چکا ہے، اور ان میں کامیابی حاصل کی ہے۔
آصف کا کہنا ہے کہ ایک طویل جدوجہد کے بعد ان کی زندگی کا سب سے بڑا سنگ میل اس وقت آیا جب وہ بالی ووڈ کے مشہور گلوکار سلمان علی سے ملے اور ان کے ساتھ اسٹیج شیئر کیا۔آصف فیض میر نے بھارت کے مشہور گلوکاروں کے ساتھ بطور گٹارسٹ کام کیا اور اپنی بے پناہ صلاحیتوں کی بدولت وہ شہرت حاصل کی جس کا انہوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ انہیں التمش فریدی اور صابری برادران جیسے ناموں کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
آصف نے میوزک اسٹوڈیو کے زیر اہتمام مشہور شو ’شوریہ‘ میں شرکت کرکے بہترین گٹارسٹ کا اعزاز حاصل کیا، جس نے انہیں کامیابی کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ آصف نہ صرف گٹارسٹ ہیں بلکہ ایک بہترین گلوکار بھی ہیں۔ آصف لوگوں کے دل جیتنے کے لیے جانے جاتے ہیں اور آج آصف ایک معروف موسیقار اور گٹارسٹ ہیں، جن کا ہنر، جذبہ اور محنت وقت کے لیے ایک مثال ہے۔
نوجوان گلوکاروں نے تمام مشکلات کا سامنا کر کے ثابت کر دیا کہ جس نے خواب دیکھنے کی ہمت کی ہو اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ آج ان نوجوان گلوکاروں نے نہ صرف وادی کشمیر بلکہ پوری دنیا میں موسیقی کو تفریح کے ساتھ ساتھ آمدنی کا ایک اہم ذریعہ دکھایا ہے جس سے وادی کے معاشی حالات میں بہتری آئی ہے۔ بلا شبہ، وہ زندگی میں بلندیوں کو حاصل کرنے کے لیے آنے والی نسل کا ذریعہ ہیں۔