Urdu News

رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کے نقطۂ نظر اور انسانی حقوق پرسپموزیم کا انعقاد

رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کے نقطۂ نظر اور انسانی حقوق پردہلی میں سپموزیم کا انعقاد

رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کے نقطۂ نظر سے انسانی حقوق کے تعلق سے بعنوان مغربی نقطۂ نظر سے انسانی حقوق نویں سیشن کا انعقادنئی دہلی کے ایوان غالب میں کیا گیا ۔

یوتھ آرگنائزیشن آف ہیومن رائٹس آف دا اسلامک ریپبلک آف ایران اور دا لیڈر ،میڈیا اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے اشتراک سے منعقد اس سیشن سے خطاب کرتے کرتے ہوئے نمائندہ ولی فقیہ آقائی مہدی مہدوی پور نے اس تعلق سے سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حقوق بشر کا یہ موضوع بہت ہی اہم ہے جس پر ہندوستان میں مختلف مقامات پر گفتگو کرنی چاہیے ۔

یہ تاریخ رہی ہے  کہ کچھ لوگوں نے ہمیشہ کچھ پر غلبہ حاصل کر نے کی کوشش کی ہے جس کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔پہلا غلامی کا دور ہے جس میں انسانوں کو خرید کرانہیں غلام بنا کر خدمت کرائی جاتی تھی اور دوسرادور جنگ و جدال کا دور گزر ا ہے جس میں جغرافیائی طور پر ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے جنگ کی گئی اور پھر تیسرا دور شروع ہوا جس میں گزشتہ تمام باتیں شامل تو رہیں لیکن ان کو قانونی شکل دے کر دنیا کو اپنے ماتحت کرنے کی کوشش کی گئی ۔آج بھی دنیا بھر میں اسلحہ فروخت کرنے والی کمپنیاں ہی امریکہ جیسی سامراجی حکومت کی پالیسی طے کرتی ہیں اور یہ سب کچھ اسرائیلی منشا کے تحت کیا جاتا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ افغانستان میں امن عالم کے نام پر امریکہ نے قتل و غارت گیری کی اور جب وہاں سے نکلا تو دہشت گردی تنظیم کو ہی حکومت سونپ دی ، کیا افغانستان میں امن قائم ہو گیا ، اسی طرح یمن کا معاملہ ہے جہاں پانچ ہزا رسے زیادہ بچے قتل کئے جا چکے ہیں اور ایک ملین سے زیادہ خواتین کا قتل کیا جا چکا ہے ۔

ایران میں ایک خاتون کے حجاب کے معاملےکو لے کر مغربی میڈیا نے جس طرح سے شور مچایا ، وہ واقعی انسانی حقو ق کی بازیابی ہے تو پھر یمن میں جو خواتین پر مظالم ہورہے ہیں اقوام متحد ہ کو وہ کیوں دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔ ایران سے تشریف لاے امین انصاری نے کہا کہ ماہرین حقوق بشر کو ساتھ لے کر یہ نواں اجلاس شہر دہلی میں منعقد کیا گیا ہے۔

 یوروپ کا تہذیب و تمدن یونان سے ہے جس کی تاریخ دو سے تین ہزار سال ہے جبکہ امریکہ دنیا کی تہذیب کا ٹھیکہ دار بنا ہوا ہے اس کی اپنی کوئی تاریخ نہیں جبکہ ہندوستان کی پانچ ہزار سال پرانی تہذیب ہے ساتھ ہی ایران کی تاریخ بھی ہزاروں سال پرانی ہے اور دونوں ہی ممالک مشترکہ تہذیب و تمدن کے حامل ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک نے دنیا میں اپنے ناجائز قبضہ کو قائم کرنے کےلئے اپنے تمدن کا آغاض کیا۔ خود برطانوی سامراج نے ہندوستان میں مظالم کی انتہا کر دی تھی۔ یہاں ہوئے ظلم و بربریت کی تاریخ موجود ہے ۔سامراسجیت انسانی حقوق کو ایک اسلحہ کے طور پر استعمال کرتی ہے ۔

نیٹو نے انسانی حقوق کے نام پر افغانستان پر ایسے مظالم ڈھائے ہیں کہ جن کے اثرات آج تک موجود ہیں اور ایسا ہی عراق میں بھی کیا گیا۔امریکہ مین ہی ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے اور قتل کیا جا رہا ہے ۔ انسانی حقوق کو پامال کرنا امریکہ اور اس کی سامراجی فکر کا شیوہ رہا ہے۔مسلم پالیٹکل کونسل کے ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا کہ آیت اللہ خامنہ ای کا نظریہ ظاہرکرتا ہے کہ اس چاند کو جس سورج سے روشنی ملتی ہے وہ سورج تو بہت پہلے دنیا نے دیکھا تھا۔ ہم تو جب غلبہ پا جاتے ہیں تو اس وقت مکہ کے دروازے پر جا کر صرف عمرہ کی اجازت چاہتے ہیں ،جب طاقت پا جاتے ہیں اور مکہ کا محاصرہ کر لیتے ہیں تو قتل نہیں بلکہ ہمارے نبی ؐفرماتے ہیں کہ آج رحمت کا دن ہے ۔

ہماری چودہ سو سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہم نے کبھی انسانی نقطۂ نظر کو ترک نہیں کیا۔منگولوں کو بھی ہم نے جھیلا تھا لیکن انہوں نے بھی اتنا ظلم نہیں کیا جتنا 110 سال کی مظالمانہ تاریخ موجود ہے ۔ڈاکٹر تسلیم رحما نی نے کہا کہ ہمارے کسی بھی دور میں کوئی پہلی یا دوسری عالمی جنگ نہیں ہوئی وہ ان مہذہب کہلائے جانے والوں نے کی ۔ امن کے نام پر لیگ آف نیشن قائم کیا گیا اور جرمنی پر پابندیاں قائم کر دی گئیں ۔

پانچ کروڑ سے زیادہ انسانوں کا خون نا حق بہا دیا گیا اور اس کے بعد خود کو مہذب انسانی حقوق کے تحفظ کا حامی کہتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پہلی جنگ عظیم نظریہ اسرائیل اور دوسری جنگ عظیم میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ آج یمن اور فلسطین کو لے کر کیوں خاموش ہے عالمی انسانی حقوق کے علمبردار ۔ایران پر 45 سال سے پابندیاں کس لئے ہیں ،صرف اس لیے کہ آیت اللہ خمینی ؒنے کہا تھا کہ آج کے دور میں بھی اسلام انسانیت کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔انہو ں نے کہاکہ جو نعرے انسانی حقوق کے دیے جا رہے ہیں یہ آنکھوں کا دھوکا ہے ۔

دیا سنگھ سربراہ آل انڈیا پیس مشن ہریانہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ انسان جو ہے وہ اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی ہی فتح ساری دنیا میں ہے۔سوال یہ ہے کہ انسانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ ہر مذہب کے ماننے والے اپنے اپنے سانچوں میں ڈھلے ہوئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سانچے آپس میں جڑ سکتے ہیں ،ہمیں انسان کے ساتھ انسان کو جوڑنا تھا۔اس موقع پرعلی مسلم یونیورسٹی سے آئے پروفیسر لطیف حسین شاہ کاظمی،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ سماجیات کی استاد عزرا عابدی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔تقریب میں خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران کے رائزن ڈاکٹر علی ربانی ، مولانا سید عابد حسین زیدی، مولانا مہدی باقر خان ، مولانا اشرف علی زیدی ، مولانا سید جلال حیدر نقوی ، مولانا فیروز ربانی ، مولانا حبیبی کے علاوہ کثیر تعدادا میں خواتین و مرد، نیز مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اہم شخصیات کے علاوہ علمائے کرام نے بھی شرکت کی ۔

Recommended