یہ وہ تاریخ ہے جسے ہندوستان کے دوسرے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی نسلیں کبھی فراموش نہیں کر سکتیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی موت کے بعد شاستری 09 جون 1964 کو وزیر اعظم بنے۔ خود شاستری نے ’جئے جوان، جئے کسان‘ کا نعرہ دیا۔
وہ تقریباً 18 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔ ان کی قیادت میں ہندوستان نے 1965 کی جنگ میں پاکستان کو شکست دی۔ اس کے بعد وہ پاکستان کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے معاہدے پر دستخط کرنے ازبکستان کے شہر تاشقند گئے۔ تاشقند معاہدے پر دستخط کے صرف 12 گھنٹے بعد 10 جنوری 1966 کو ان کا انتقال ہوگیا۔ لال بہادر شاستری کی موت کا معمہ آج بھی برقرار ہے۔
کہا جاتا ہے کہ موت سے آدھا گھنٹہ پہلے تک شاستری بالکل ٹھیک تھے لیکن 15 سے 20 منٹ میں ان کی صحت بگڑ گئی۔ اس کے بعد ڈاکٹروں نے انہیں انٹرا مسکولر انجکشن دیا۔ انجکشن لگانے کے چند منٹ بعد ہی ان کی موت ہو گئی۔
شاستری کی موت مشتبہ تھی پھر بھی ان کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا تھا۔ ان کی اہلیہ للیتا شاستری نے دعویٰ کیا کہ ان کے شوہر کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا۔ ان کے بیٹے سنیل نے یہ بھی بتایا کہ ان کے والد کے جسم پر نیلے رنگ کے نشانات تھے۔
جب شاستری کی میت کو دہلی لانے کے لیے تاشقند کے ہوائی اڈے پر لے جایا جا رہا تھا تو راستے میں سوویت یونین، ہندوستان اور پاکستان کے جھنڈے اتار دیے گئے۔ شاستری کے تابوت کو کندھا دینے والوں میں اس وقت کے سوویت یونین کے وزیر اعظم الیکسی کوسیگین اور پاکستان کے اس وقت کے صدر ایوب خان بھی شامل تھے۔