ہزاروں اسرائیلی مظاہرین نے ہفتہ کی ٹھنڈی رات کو نیتن یاہو کی نئی حکومت کے خلاف شدید احتجاج کر کے گرما گرمی پیدا کر دی۔ 15000 مظاہرین نئی اسرائیلی حکومت کی عدلیہ مخالف سمجھی جانے والی مجوزہ قانون سازی کے خلاف احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل آئے۔
احتجاج کے اسرائیلی دارالحکومت میں سب سے بڑا اکٹھ نظر آیا جبکہ دوسرے شہروں میں بھی اسی طرح کے مظاہروں کا اعلان کیا گیا تھا۔
احتجاج کرنے والوں کا موقف ہے کہ اسرائیل کی نئی حکومت عدالتی فیصلوں کو ختم کرنے ، مقدمات کو ختم کرنے کا اقدام حکومت پر عدالتی بالا دستی کا خاتمہ چاہتی ہے۔
تاکہ وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمات کا ٹرائل رکوا سکے اور بعض کابینہ ارکان کی سزائیں ختم کرانے کے لیے راہ ہموار کر سکے۔یہ اسرائیلی مظاہرین کی ججوں کی تقرری کے معاملے کو بھی حکومتی کنٹرول میں دینے کے لیے قانونی تبدیلی کے بھی خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے اسرائیل میں جمہوریت کا قتل ہو جائے گا۔
نیتن یاہو حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے ہفتے میں ہی ان ترامیم کا اعلان کر دیا تھا۔ جس پر مسلسل احتجاج اور تنقید کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی موجودہ چیف جسٹس، موجودہ اٹارنی جنرل حکومت کی مجوزہ ترامیم اور عدالتوں کے خلاف ارادوں پر کھل کر تنقید کر چکے ہیں جب کہ ایک سابق چیف جسٹس نے بھی ان ترامیم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ ان ترامیم کو جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے نئے وزیر قانون و انصاف ان ترامیم کا دفاع کر رہے ہیں۔ وزر انصاف کا کہنا ہے کہ چند غیر منتخب ججوں کو منتخب حکومت پر اختیارات کیسے دیے جا سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس سے جمہوریت مضبوط ہو گی۔