اسلم آزاد شمسی
عصر حاضر کے اردو شاعری میں بے شمار ایسے شعرا حضرات ہیں جو اردو زبان و ادب کے حوالے سے اپنی بیش بہا خدمات انجام دے رہے ہیں. اور تمام تر شعرا کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ انکی شاعری منفرد رنگ و آہنگ اور لب و لہجے سے لبریز ہو اور تمام تر پیرائے پر کھرا بھی ہو تاکہ شعر و سخن کی دنیا میں اسکی حیثیت مسلم ہو اور ایک صاحب طرز شاعر کے طور پر مستحکم ہو سکے۔
موجودہ وقت میں مختلف ایسے شعرا ہے جنہوں نے اپنی منفرد لب و لہجہ اور تخلیقی صلاحیت سے اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے ۔انہیں چند مقبول ترین ناموں میں سے ایک نام نیاز جیراجپوری کا ہے جن کا تعلق ہندوستان کے ادبی و علمی لحاظ سے زرخیز شہر اعظم گڑھ سے ہے ۔
شاعر موصوف کو بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ شعر و شاعری سے شغف وراثت میں ملی تھی طالب علمی کے زمانے سے ہی شعر کہنے لگے تھے۔اپنا پہلا شاعر انیس سو اناسی میں لکھا ۔ان کے لکھنے پڑھنے کے شوق اور علمی لیاقت کو دیکھتے ہوئے انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہال میگزین “مسعود” کا ایڈیٹر بھی بنایا گیا تھا ۔ نیاز جیراج پوری نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے ایل ایل ایم تک کی تعلیم حاصل کی کچھ عرصہ تک فلموں میں کام کیا پر کچھ ذاتی مشکلات کے سبب وطن واپس لوٹ آئے اور یہں دل و جان سے اردو زبان و ادب کی خدمت اور صحافت کا کام انجام دینے لگے ۔
نیاز جیراجپوری نے یوں تو تمام صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور خوب داد و تحسین حاصل کیا ہے پر ان کی نظمیں ان کی شاعری کی جان ہے ۔ کہتے ہیں کہ ادب اپنے دور کے سیاسی، سماجی،تہذیبی، اقتصادی اور دیگر حالات و معاملات کا آئینہ دار ہوتا ہے جو کہ ملک و قوم اور سماج کو انقلاب، حوصلے اور عزم کے جذبے سے سرشار کرتی ہے جو کہ معاشرتی بدلاؤ لانے میں معاون ثابت ہوتی ہے اور تخلیق کار اپنے مقاصد کو بروئے کار لا پاتے ہیں ۔
نیاز راج پوری کی شاعری میں بھی بلاشبہ وہ آئینہ صاف دکھتا ہے جس میں وہ اپنی قوم کی پیڑا اور درد و کرب کو بہترین اور مؤثر انداز میں قاری کے سامنے رکھتے ہیں ۔ شاعر موصوف اپنے گرد و نواح کے تمام تر مسائل پر کھل کر بےباک ہو کر لکھتے ہیں ۔ان کی تخلیقات سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اپنے قوم و ملت سے بے انتہا محبت ہے اور وہ روایتی اور جڑیں جما چکی مسائل کا ازالہ چاہتے ہیں ۔
انہیں اردو زبان و ادب سے بھی بے پناہ محبت و رغبت ہے جن کا اظہار گاہ گاہ اپنی شاعری میں کرتے نظر آتے ہیں ۔اردو زبان سے محبت، اسکی شیرنی، حلاوت، اوصاف اور دلکشی کے حوالے سے اپنی نظم میں وہ لکھتے ہیں
شہد ہے شبنم ہے اور شہنائی ہے اردو زبان
شیریں ہے شفاف ہے سکھ دائ ہے اردو زبان
دیکھیے عینک ہٹا کر بغض و نفرت کی جناب
چھا رہی ہے چھائ ہے اور چھائے گی اردو زبان
ہے دھنک کے سات رنگوں کے نمایاں امتزاج
دلکشی ہے حسن ہے رعنائی ہے اردو زبان
ہے جہاں اردو وہاں رونق ہی رونق ہے نیاز
زیب ہے زیبا ہے اور زیبائی ہے اردو زبان
(اردو زبان)
اس کے علاوہ وہ لکھتے ہیں
میں اک تہذیب ہوں مجھ کو مٹانا چاہتے ہو تم
میں اردو ہوں تمہاری سازشوں سے ڈر نہیں سکتی
تمہیں معلوم ہونا چاہیے میں مر نہیں سکتی
(میں اردو ہوں)
موصوف موجودہ وقت میں اردو کے صف اول اور نامور شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں بطور ایک شاعر انہوں نے اپنے آپ کو ثابت تو کیا ہی ہے نیز وہ اردو کی خدمت میں بھی دل و جان سے مصروف ہیں۔واہ ایک سنجیدہ، فعال، متحرک اور حساس شخصیت کے مالک ہیں جسے قوم و ملت کے ساتھ ساتھ ان کی زبان سے بھی محبت وہ رغبت ہے ۔ان کے اندر اس کی فکر ہے اور فکر ان کی شاعری میں جا بجا نظر آتا ہے ۔
نیاز صاحب سے میرا تعلق تقریبا تین سال کا ہے ان کی تحریریں عام طور پر سوشل میڈیا پر دیکھتا ہوں جہاں اہل علم حضرات اور دوست احباب ان کی پذیرائی کرتے دکھ جاتے ہیں اس کے علاوہ مختلف رسالوں اور اخبارات میں ان کی غزلیں نظمیں اکثر نظروں سے گزرتی ہے ۔
میری نظر میں نیاز جیراج پوری ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں وہ اپنے اندر علم کا سمندر رکھتے ہیں ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انہوں نے ادب اور اپنا علمی تڑپ کو خوب سیراب کیا ہے لہذا ان کی شاعری میں بھی وہ تہذیب، حقیقت پسندی، فکری عنصر اور ذہنی استدلال صاف نظر آتا ہے ۔ان کی شاعری اور خصوصا ان کی نظمیں حقیقت پسندی کا احاطہ کرتی ہے ۔ان کی شاعری ہمیں حقیقت سے روبرو کراتی ہے. انکی شاعری دماغ سے زیادہ قاری کے جذبات کو متاثر کرتی ہے. انکی شاعری کے رنگ و آہنگ میں جذبات و احساسات کا وہ حسین منظر دکھائی دیتا ہے جو انہوں دیگر اردو شعراء کی بھیڑ سے الگ رکھتی ہے. ان کی نظموں میں خیالات کی آفرینی ہے وہ مختلف موضوعات پر کھل کر بے باک انداز میں لکھتے ہیں ۔۔۔
حب الوطنی ،قومی یکجہتی، تیج تہوار، عوامی زندگی، رسم و رواج، ملک کی وراثت، اردو اور دیگر ملی و قومی اور بین الاقوامی مسائل اور موضوعات پر انہوں نے کمال کی نظمیں تحریر کی ہے ۔نظم “ہولی کے بعد” میں لکھتے ہیں
پانی صابن سے لڑ رہی ہو کیا
اپنا چہرہ رگڑ رہی ہو کیا
رنگ میں نے ملے جو گالوں پر ہنس کے ان سے جھگڑ رہی ہو کیا
ایک اور جگہ “دیوالی” کے عنوان پر نظم میں کچھ یوں لکھتے ہیں کہ
ذہن و دل کو کرتے روشن دیپ یہ دیوالی کے
ہر طرف پھیلے اجالے خوشیوں کے خوشحالی کے
رنگ و روغن سے سجیلے ہو گئے دیوار و در
جو بھی تھے کوڑے کباڑے ہو گئے گھر سے باہر
اے نیاز آیا مرے گھر دیپ لیکر رام دھن
یار مرا کر گیا روشن میرا بھی گھر آنگن
عید کی خوشیاں ہیں دیتے دیپ یہ دیوالی کے
ہر طرف پھیلے اجالے خوشیوں کے خوشحالی کے
صدائے جمہور اور تشدد ، میں مسلمان ہوں، مہنگائی، طلاق ثلاثہ، مجبوری، جمہوریت کی لاش، آہ تریپورہ، آہ فلسطین، ماب لنچنگ وغیرہ انکی ایسی نظمیں ہیں جو انکے احساسات، جذبات، عوام اور قوم کے تئیں ہمدردی کا اظہار کرتی ہیں اور ایک حساس ذہن کی طرف اشارہ کرتی ہیں.
نظم مجبوری میں وہ لکھتے ہیں
سامنے کاغذ قلم ہیں ذہن و دل کہتے بھی ہیں
کچھ نہیں آتا سمجھ میں ہم لکھیں تو کیا لکھیں
ہے گھٹن سی وادی افکار و احساسات میں
کس طرح ایسے میں کوئی گیت یا نغمہ لکھیں
اف! یہ کیسا وقت کیسی گردش حالات ہے
اضطراب، الجھن، بےچینی نے کیا دو چار ہے
کچھ نہیں آتا سمجھ میں ایسے میں کیا کیجیے
زندگی بھی جیسے اپنے آپ سے بیزار ہے.
نظم ماب لنچنگ میں اپنے احساسات اور کرب کو پیش کرتے ہیں کہ
ماب لنچنگ کی یہ خبریں آئے دن جو آتی ہیں
ذہن و دل کو رات دن رنجور کرتی جاتی ہیں
زندگی کے آئینہ کو چور کرتی رہتی ہیں
چھین لے جاتی ہے خوشیاں رنج و غم دے جاتی ہیں
آئینہ قومی یکجہتی پہ پڑ جاتی ہے خاک
نام پر مریادہ پرش اتم کے یہ ظلم و ستم
کالے کالے حرفوں میں تاریخ میں ہونگے رقم
آہ! ملک و قوم کے حالات ہیں تشویشناک
بے خبر ہیں رام جی کے وصف و کردار سے
نفرت و بغض و تعصب کا لگا ہے جنکو روگ
ماب لنچنگ میں ملوث ذہن و دل کے کالے لوگ
ہو رہے ہیں زعم میں تعداد کے خونخوار سے
جاں بلب سونے کی چڑیا کو جو کرتا رہتا ہے
اے نیاز ایک جھنڈ یہ خارش زدہ کتے کا ہے
مذکورہ بالا اشعار میں شاعر اپنے جذبات اور احساسات اور کرب و اضطراب کا اظہار نہایت سنجیدگی سے کر رہے ہیں۔
آج کے شعرا کی فہرست میں وہ ایک منفرد نظر آنے والے شاعر ہیں ان کی تحریر اور مختلف موضوعات پر ان کی نظمیں جو انہوں نے تحریر کی ہیں ان کا اسلوب، ان کا فکر و خیال انہیں دیگر شعرا سے بہتر ثابت کرتی ہے۔ان کی نظمیں سامعین اور قارئین کے ذہن پر نقش کرنے والی ہوتی ہے. قاری کے دلوں میں میں جوش و جذبہ اور ایثار و قربانی کے تئیں ولولہ پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے ہندوستان ،یہاں کی تہذیب و تمدن، زبان اور دیگر چیزوں کا بہترین ڈھنگ سے احاطہ کیا ہے جو انہیں قوم پرست شاعر کی حیثیت سے دیکھنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے عالمی سطح کی موضوعات اور مدعوں پر بھی کھل کر لکھا ہے۔ملک و قوم اور عالمی مسائل پر بھی ان کی تحریر قابل ذکر ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کی نظر محدود نہیں ہے ۔وہ متحرک اور فعال ہیں. خدا کی تخلیق کردہ ہر شے سے ان کا تعلق ہے اور ہر شے سے ان کا رشتہ استوار ہے گویا کہ جب میں نیاز جیراجپوری کی نظموں کو پڑھتا ہوں تو مجھے کچھ پرانے شعرا کی یاد آتی ہے اور مجھے ان میں بھی ان مرحوم شاعروں کا عکس نظر آتا ہے ۔
یعنی کے کامل طور پر وہ ایک حقیقت پسند شاعر ہیں حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں مختلف موضوعات پر پینی نظر رکھتے ہیں عمیق مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنی علمی صلاحیت کا خوب بہتر استعمال اپنی شاعری میں کرتے ہیں۔ان میں وہ فن موجود ہے جو قاری کو اپنی طرف مائل کر سکتا ہے داد و تحسین حاصل کرسکتا ہے اور پیغام عام کر سکتا ہے ۔شاعر موصوف ایک حساس اور پر عزم حوصلہ کے مالک ہیں ساتھ ہی بے حد بے باک اور حاضر جواب بھی۔ ان کی علمی صلاحیت ان کے قلم کی تاثیر ہے جو ان کے تخلیق میں روح پھونکنے کا کام کرتی ہے ۔ ۔ یقینا وہ اپنے علم سے قلم کے ذریعے معاشرے کو نئی راہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور راقم الحروف کو قوی امید ہے کہ وہ اپنی مسلسل کاوشوں میں ضرور بضرور کامیابی حاصل کریں گے ۔
مبصر :اسلم آزاد شمسی
اسسٹینٹ ٹیچر +2 ہائ اسکول ہنوارہ گڈا جھارکھنڈ