گلگت بلتستان (پی او کے)، 28 فرور ی
اظہار رائے’اور ‘میڈیا کی آزادی’ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پی او کے) گلگت بلتستان خطے میں خدمات انجام دینے والے صحافیوں اور کارکنوں کے لیے اب بھی ایک دور کا خواب ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے زیر اہتمام “گلگت بلتستان میں معلومات کا حق” کے موضوع پر منعقدہ مباحثے میں شرکاء نے سرکاری محکمے کے مختلف شعبوں کی جانب سے معلومات کے تبادلے پر تشویش کا اظہار کیا۔
شرکاء میں سے ایک نے شکایت کی کہ پی او کے خطے میں آر ٹی آئی (اطلاع کا حق) داخل کرنے کے بعد بھی حکومت کی طرف سے کوئی معلومات نہیں دی جاتی ہے۔ایک اور شریک نے کہا کہ انہیں ہنزہ کے علاقے میں کسی بھی سکیم کے بارے میں مختلف محکموں سے معلومات حاصل کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تقریب میں موجود متعدد صحافیوں نے عوامی پالیسیوں یا اسکیموں کے بارے میں کسی بھی عمومی سوال کے خلاف سرکاری حکام کی جانب سے موصول ہونے والے انکار کی نشاندہی کی۔
اگرچہ، پاکستان کا آئین 2002 میں نافذ ہونے والے فریڈم آف انفارمیشن آرڈیننس کو برقرار رکھتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کے لیے آرٹیکل 19(اے) کا مزید اضافہ کیا گیا ہے ۔
گلگت بلتستان کے صحافی اسے محض ایک کہاوت سمجھتے ہیں جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔صحافیوں کا کہنا تھا کہ ’رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ‘ یا آر ٹی آئی اگرچہ پاکستان میں لاگو ہے لیکن مقبوضہ علاقے میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اختلاف رائے کی آوازوں کے خلاف منظم کریک ڈاؤن، انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں اور پاکستان حکومت کے خلاف بولنے والے صحافیوں کو حراست میں لینا گلگت بلتستان میں عام ہے۔