Urdu News

جدید اردو غزل کے بنیاد سازوں میں شامل اور معروف شاعر: ناصرؔ کاظمی

شاعر ناصرؔ کاظمی

اعجاز زیڈ ایچ

آج02؍مارچ 1972جدید اردو غزل کے بنیاد سازوں میں شامل اور معروف شاعر ناصرؔ کاظمی صاحب کا یومِ وفات ہے۔

ناصر رضا کاظمی نام اور ناصرؔ تخلص تھا۔ ٨؍دسمبر ۱۹۲۳ کو انبالہ(ہندستان) میں پیدا ہوئے۔اسلامیہ کالج لاہور سے ایف اے پاس کرنے کے بعد بی اے میں پڑھ رہے تھے کہ چند وجوہ کی بنا پر امتحان دیے بغیر وطن انبالہ واپس چلے گئے۔۱۹۴۷ میں دوبارہ لاہور آگئے۔ایک سال تک ’’اوراقِ نو‘‘ کے عملہ ادارت میں شامل رہے۔

 اکتوبر۱۹۵۲ سے ’’ہمایوں‘‘ کی ادارت کے فرائض انجام دینا شروع کیے۔ ناصر کی شعر گوئی کا آغاز ۱۹۴۰ء سے ہوا۔ حفیظؔ ہوشیارپوری سے تلمذ حاصل تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اردو غزل کے احیا میں ان کا نمایاں حصہ ہے۔

۲؍مارچ ۱۹۷۲ کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:

’برگ نے‘، ’دیوان‘، ’پہلی بارش‘، ’خشک چشمے کے کنارے‘ (مضامین) ’نشاطِ خواب‘، ’انتخاب نظیر اکبرآبادی‘،کلیات ناصر کاظمی بھی چھپ گئی ہے۔

بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:155

مشہور شاعر ناصؔر کاظمی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت۔۔۔

اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

تیری مجبوریاں درست مگر

تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر

ذرا سی بات سہی تیرا یاد آ جانا

ذرا سی بات بہت دیر تک رلاتی تھی

مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے

بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں

جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے

تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا

کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں

آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے

تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دوں گا

اس شہر بے چراغ میں جائے گی تو کہاں

آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں

دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا

جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے

Recommended