دانیال حسن چغتائی (پاکستان)
اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے وہ مبارک مہینہ ہمیں نصیب فرمایا جس کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دُعائیں مانگ کر اس کو پانے کی تمنا کرتے تھے کہ اے اللہ ! رجب شعبان میں برکت دے اور ہمیں رمضان تک پہنچا دے۔ رجب پانے کے بعد رمضان تک جینے کی تمنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس ماہ مبارک کی عظمت وفضیلت اور اس کی رحمتیں اور برکتیں کتنی ہوں گئیں۔ رمضان المبارک کے شروع ہونے سے پہلے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اہمیت سمجھاتے تھے تاکہ کوئی تساہل و غفلت میں اس کو ایسے ہی نہ گزار دے جیسے کہ سال کے گیارہ مہینے گزارے ہیں۔ یہ مہینہ مغفرت کا مہینہ ہے اور مغفرت ایک نہایت ہی اہم مسئلہ ہے۔ جس کی مغفرت ہوئی اس کی خوشی کا کیا ٹھکانہ ! اور جو محروم رہا اس کی محرومی کا کیا ٹھکانہ ! اس لئے موقع بہ موقع مغفرت کی دعامانگتے تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں ایک دُعا یہ بھی ہے: اے اللہ ! میں تجھ سے عفو اور عافیت کا سوال کرتا ہوں ۔ علماء نے لکھا ہے کہ عافیت کا تعلق دنیوی زندگی سے ہے اور عفو ( معانی ) کا تعلق اُخروی زندگی ہے۔ جس کو دنیا کی عافیت ملی اور آخرت میں معافی ملی۔ وہی حقیقتا کامیاب ہے۔ چونکہ یہ مہینہ معافی کا مہینہ ہے۔
ذرا ذرا سے بہانے پر مغفرت کا سامان ہے ۔ گویا کہ مغفرت کا سیزن ہے۔ اس سیزن میں بھی اگر کسی کی مغفرت نہ ہو تو یقینا وہ انتہا درجہ کی بدبختی اور شقاوت ہے۔ اس لئے جبرائیل امین نے ایسوں کے لئے ہلاکت کی دعا کی اور حضور اکرم ﷺ نے اس پر آمین کہی۔ اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔ آمین!
اس مہینہ میں عبادات کے اجر و ثواب کو بڑھادیا جاتا ہے۔ نفل ، فرض کے برابر اور فرض ستر فرضوں کے برابر ۔ عبادات و اعمال کے اجر و ثواب بڑھا کر ان کی پابندی کی جو ترغیب دی گئی ہے وہ صرف اس لئے کہ عبد اپنا حق عبدیت ادا کرنے کا خوگر بنے۔ گویا یہ مہینہ عبادات کی مشق کا مہینہ ہے تا کہ بقیہ سال بھر اس پر اسے استقرار نصیب ہو۔
اللہ کرے ہمیں رمضان المبارک کی قدردانی نصیب ہو۔ جو واقعتا قدردان ہوں گے ان کا رمضان خوشیوں کو اور خدا کی رضامندی کو لے کر آئے گا۔ زندگی میں بہت سارے رمضان آئے بھی اور چلے بھی گئے لیکن قدردانی کا حق ادا نہیں ہو سکا۔ آئیے اب کی بار پختہ ارادہ کر لیں کہ اس رمضان کو پوری قدردانی کے ساتھ گزاریں گے ۔
روزانہ کوئی وقت مقرر کر کے یہ سوچیں کہ اللہ تعالٰی نے کیسا عظیم الشان مہینہ عطا فرمایا ہے۔ اسی طرح رمضان اور اعمال رمضان کی فضیات اور اس کے ثواب کو سوچیں، رمضان کے ملنے پر خدا کا شکر ادا کریں، اعمال رمضان کا حق ادا کرنے کی توفیق خدا سے مانگیں ، رمضان گذر جائے پھر بھی مغفرت نہ ہو تو جبرائیل امین کی بددعا کو سوچیں۔ اور انعام والی رات میں خدا کی طرف سے کئے جانے والے وعدوں کا استحضار کرتے رہیں تو انشاء اللہ رمضان کی قدر دانی کا حق ادا کرنے کی توفیق شامل حال ہو جائے گی۔
ان شاء اللہ ! مندرجہ بالا تمام ترغیبات کے باوجود ، گرفتار علائق ہونے کی وجہ سے اتصال حقائق ہو نہیں پاتا ۔ ان باتوں پر قابو پانے کی ایک آسان صورت یہ ہے کہ ہر ہر گھنٹہ کا نظام الاوقات بنا لیں کہ کس وقت میں ہمیں کیا کرنا ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ نظام الاوقات بنا لیں۔ ان باتوں کو قابو میں لانا آسان اور اس کی ایک بہتر شکل یہ بھی ہے کہ رمضان گھر سے دور خدا کی راہ میں گذارا جائے۔
تجربہ شاہد ہے کہ بڑی عجیب نورانیت و طمانیت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اور امت محمدیہ ہونے کی وجہ سے جو فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر عائد ہوتا ہے، اس کو ادا کرنے کی سعادت بھی ملتی ہے اور سعادت دنیوی اخروی بھی حاصل ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔