شمال مشرقی ریاستوں کی ترقی کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج) نیز وزیراعظم کے دفتر، عملہ، عوامی شکایات اور پنشن، جوہری توانائی اور خلاء کے وزیرمملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ کو آج پتھر بازی میں بچوں کا استعمال کرنے اور بچوں کو پتھر بازی میں شامل کرنے والوں کو سزادینے کے قانون کے سلسلے میں جانکاری دی گئی۔ یہ قانون اب جموں وکشمیر میں آئین کے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے اور ریاست کے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بن جانے کے بعد لاگو ہوگیا ہے۔
بچوں کےحقوق کے تحفظ سے متعلق قومی کمیشن (این سی پی سی آر) کے چیئرمین پرینک کانونگو نے ڈاکٹر جتیندر سنگھ سے ملاقات کی اور جموں وکشمیر اور لداخ میں بچوں کےحقوق سے متعلق اہم مسائل پر تبادلہ خیال کیا جو کہ این سی پی سی آر کے ذریعے حال میں کیے گئے تجزیے سے نکل کر آئے تھے۔ انہوں نے جوینائل جسٹس ایکٹ کے سختی سے نفاذ کی ضرورت پر بھی زور دیا جس کا اب دونوں مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں اطلاق ہوگیا ہے۔
جناب کانونگو نے ڈاکٹر جتیندر سنگھ کو بتایا کہ جوینائل جسٹس ایکٹ 2015 کے سیکشن 83(1) کے مطابق کوئی غیرسرکاری، مرکزی حکومت کے ذریعے اعلان کردہ ملیٹنٹ گروپ یا تنظیم اگر کسی بچے کو کسی بھی مقصد سے استعمال کرتی ہے تو وہ سات برس تک کی قید بامشقت اور پانچ لاکھ روپئے کے جرمانے کی سزا وار ہوگی۔ اسی قانون کے سیکشن 83(2) میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی بالغ یا بالغ گروپ ذاتی طور پر یا گروپ کے طور پر بچوں کو غیرقانونی سرگرمیوں میں استعمال کرتا ہے تو سات برس کی قید بامشقت اور پانچ لاکھ روپئے کے جرمانے کا حقدار ہوگا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پتھر بازی یا کسی بھی پُرتشدد سرگرمی میں بچوں کو شامل کرنے یا اس کے لئے ان کو اُکسانے کے مجرموں کے خلاف قانون کے تحت سخت کارروائی کی جائے گی۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے نوتشکیل شدہ مرکز کے زیر انتظام علاقوں جموں وکشمیر اور لداخ سمیت ملک میں بچوں کے حقوق کی سمت میں این سی پی سی آر کی کوششوں کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا پتھر بازی میں بچوں کو شامل کرنا یا اس کے لئے اُکسانا نہ صرف قانون کے خلاف ہے بلکہ انسانیت کے خلاف بھی جرم ہے۔
اس کے علاوہ این سی پی سی آر کے چیئرمین کانونگو نے ڈاکٹر جتیندر سنگھ سے جنسی جرائم سے بچوں کا تحفظ پاکسو ایکٹ 2020 کے سلسلے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔ یہ قانون بھی جموں و کشمیر اور لداخ میں اب لاگو ہوگیا ہے۔ انہوں نے وزیر موصوف کو جموں وکشمیر کے مختلف ضلعوں میں اسٹیک ہولڈروں کو حساس بنانے کیلئے این سی پی سی آر کے ذریعے منعقدہ مختلف ورکشاپوں اور پروگراموں کے سلسلے میں بھی جانکاری دی۔جناب کانونگو نے ڈاکٹر جتیندر سنگھ کو بتایا کہ جوینائل جسٹس ایکٹ 2015 کے سیکشن 83(1) کے مطابق کوئی غیرسرکاری، مرکزی حکومت کے ذریعے اعلان کردہ ملیٹنٹ گروپ یا تنظیم اگر کسی بچے کو کسی بھی مقصد سے استعمال کرتی ہے تو وہ سات برس تک کی قید بامشقت اور پانچ لاکھ روپئے کے جرمانے کی سزا وار ہوگی۔ اسی قانون کے سیکشن 83(2) میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی بالغ یا بالغ گروپ ذاتی طور پر یا گروپ کے طور پر بچوں کو غیرقانونی سرگرمیوں میں استعمال کرتا ہے تو سات برس کی قید بامشقت اور پانچ لاکھ روپئے کے جرمانے کا حقدار ہوگا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پتھر بازی یا کسی بھی پُرتشدد سرگرمی میں بچوں کو شامل کرنے یا اس کے لئے ان کو اُکسانے کے مجرموں کے خلاف قانون کے تحت سخت کارروائی کی جائے گی۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے نوتشکیل شدہ مرکز کے زیر انتظام علاقوں جموں وکشمیر اور لداخ سمیت ملک میں بچوں کے حقوق کی سمت میں این سی پی سی آر کی کوششوں کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا پتھر بازی میں بچوں کو شامل کرنا یا اس کے لئے اُکسانا نہ صرف قانون کے خلاف ہے بلکہ انسانیت کے خلاف بھی جرم ہے۔
اس کے علاوہ این سی پی سی آر کے چیئرمین کانونگو نے ڈاکٹر جتیندر سنگھ سے جنسی جرائم سے بچوں کا تحفظ پاکسو ایکٹ 2020 کے سلسلے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔ یہ قانون بھی جموں و کشمیر اور لداخ میں اب لاگو ہوگیا ہے۔ انہوں نے وزیر موصوف کو جموں وکشمیر کے مختلف ضلعوں میں اسٹیک ہولڈروں کو حساس بنانے کیلئے این سی پی سی آر کے ذریعے منعقدہ مختلف ورکشاپوں اور پروگراموں کے سلسلے میں بھی جانکاری دی۔