اعجاز زیڈ ایچ
آج – 30؍مئی 2003مقبول عام شاعر،لکھنؤی زبان وتہذیب کےنمائندہ شاعرکرشن بہاری نورؔکی برسی ہے۔
نام کرشن بہاری اور نورؔ تخلص تھا۔ ۸؍نومبر۱۹۲۵ کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ان کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۴۲ سے ہوا جب وہ مولانا ظفر عباس نقوی، فضل لکھنؤ کے حلقۂ تلامذہ میں داخل ہوئے۔ نور صاحب محکمۂ پوسٹل اینڈ ٹیلی گراف میں ملازم تھے اور ایک ذمے دار عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ’’دکھ سکھ‘‘کے نام سے ان کا ایک شعری مجموعہ ۱۹۷۷ میں اترپردیش اردواکادمی کے مالی اشتراک سے شائع ہوا۔
’’تپسیا‘‘ بھی ا ن کی تصنیف ہے۔ایک مجموعۂ دیوناگری میں بھی ’’سمندر میری تلاش میں ہے‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اترپردیش اردو اکادمی نے ان کی ادبی خدمات پر انعام دیا۔ ٣٠؍مئی ۲۰۰۳ کو غازی آباد میں وفات پاگئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:175
معروف شاعر کرشن بہاری نورؔ کی برسی پر منتخب اشعار اظہار عقیدت۔۔۔
آئنہ یہ تو بتاتا ہے کہ میں کیا ہوں مگر
آئنہ اس پہ ہے خاموش کہ کیا ہے مجھ میں
—
میں تو غزل سنا کے اکیلا کھڑا رہا
سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے
—
کیسی عجیب شرط ہے دیدار کے لیے
آنکھیں جو بند ہوں تو وہ جلوہ دکھائی دے
—
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں
—
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں
—
میں جس کے ہاتھ میں اک پھول دے کے آیا تھا
اسی کے ہاتھ کا پتھر مری تلاش میں ہے
—
ہوس نے توڑ دی برسوں کی سادھنا میری
گناہ کیا ہے یہ جانا مگر گناہ کے بعد
—
کیوں آئینہ کہیں اسے پتھر نہ کیوں کہیں
جس آئینے میں عکس نہ اس کا دکھائی دے
—
تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا یعنی
کبھی دریا نہیں کافی کبھی قطرہ ہے بہت
—
اک غزل اس پہ لکھوں دل کا تقاضا ہے بہت
ان دنوں خود سے بچھڑ جانے کا دھڑکا ہے بہت