جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ایران کے ساتھ سفارتی راستہ کھلا ہے: امریکہ
واشنگٹن،17فروری(انڈیا نیرٹیو)
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ سفارتی راستہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لئے کھلا ہے۔بلنکن نے این پی آر ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ”ایران کو پہلے قدم کے طور پر معاہدے پر عمل کرنا ہوگا۔ صدر جو بائیڈن نے واضح کیا ہے کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ہم بھی ویسا ہی کریں گے۔ سفارتکاری کا راستہ اب بھی کھلا ہے۔ ایران اب بھی اس معاہدے پر عمل پیرا نہیں ہے۔ تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا کرتا ہے۔“
قابل ذکر ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر مزید دباؤڈالنے کے لیے جوہری معاہدے سے امریکہ کو الگ کردیا تھا ، لیکن موجودہ صدر جو بائیڈن اس معاہدے پر واپس آنے اور ایران کے میزائل پروگرام اور مغربی ایشیائی کے دیگر امور پر بات چیت کا راستہ کا اپنانے کی بات کی تھی۔
بلنکن نے جوزف بائیڈن کے اس بیان کی تائید کی کہ ایران بغیر کسی معاہدے کے مہلک ہتھیاروں کے مواد تیار کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے قریب ہے۔ انہوں نے کہا ”اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ایران کو جوہری معاہدے میں واپس لانے کی کوشش کرنی چاہئے“۔ شایدایران اب بھی اس معاہدے پر واپس جانے کے لئے تیار ہے۔ اس سے اس کی معیشت کو کچھ پابندیوں سے نجات مل سکتی ہے۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنے کے لیے دونوں فریقوں میں اب بھی دلچسپی ہے“۔
اسرائیل کا ایران کوفوجی کارروائی کی ’دھمکی‘ سے سنجیدہ مذاکرات کے میز پر لانے کا مشورہ
اسرائیل نے کہا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام سے نمٹنے کی حکمت عملی کے بارے میں امریکی صدر جو بائیڈن سے بات چیت نہ کرنے کے امکان کا عندیہ دیا ہے۔ اسرائیل نے تہران پر پابندیاں سخت کرنے اور’’معتبر فوجی انتباہ‘‘ پر زور دیا۔
امریکہ میں متعین اسرائیلی سفیر گیلاد اردان طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوسری طرف عبوری وزیراعظم بنجمن نیتن یاھواگلے ماہ اپنی دوبارہ انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
نیتن یاھو نے ایک بار پھر ایران کے بارے میں سخت لہجے کا استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک نیتن یاھو اور بائیڈن کے درمیان کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہوا۔نئی امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر ایران سنہ 2015میں طے پائے معاہدے کی شرائط اور پروٹوکول پر عمل درآمد کرتا ہے تو امریکا دوبارہ اس معاہدے کا حصہ بن سکتا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ طے پائے معاہدے سے علاحدگی اختیار کرنے کے بعد ایران پر سابقہ پابندیاں بحال کردی تھیں۔
امریکہ میں متعین اسرائیلی سفیر گیلاد اردان اسرائیلی آرمی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر نئی انتظامیہ اس معاہدے پر واپس آجاتی ہے تو ہم اس عمل میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔
اسرائیل 2015 کے معاہدے کا فریق نہیں تھا لیکن امریکی کانگریس میں اسرائیل کے طاقت ور حامی اور اتحادی موجود تھے۔ نیتن یاھو کی ایران کے خلاف یک طرفہ فوجی کارروائی کی دھمکیاں بھی سپر پاور کے زمرے میں آتی ہیں۔
اسرائیلی سفیر گیلاد اردان کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ اگر امریکہ اس معاہدے پر واپس آجاتا ہے جس سے وہ پہلے ہی دستبردار ہوچکا ہے تو وہ اپنا سارا اختیار کھو دے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حالیہ پابندیاں برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ایران کو ٹھوس فوجی انتباہ کے ذریعے مغرب کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات پر قائل کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنا ضروری ہے۔