فوکس عالمی یوم خواتین :
یونیورسٹی آف پٹرولیم اینڈ اینرجی اسٹیڈیز (یو پی ای ایس)،دہرادون کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کی پروفیسر ڈاکٹر نیلو آہوجہ ان پہل کو لیکر پرجوش ہیں جو دیہی خواتین اور معاشرے کے پسماندہ طبقوں کی دیگر خواتین کی زندگیوں میں تبدیلی لائیں گی۔وہ پر اعتماد ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی اتراکھنڈ جیسی ریاست کی دیہی خواتین کی آمدنی میں اضافہ کرنے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔اس ریاست سے ان کا گہرا لگاؤ ہے جس سے وہ اپنی 20 سالہ پیشہ ورانہ زندگی کے ذریعہ جڑی رہی ہیں۔
اپنے خوابوں کو پورا کرنے کیلئے کئی دروازوں پر دستک دینے کے بعد انہوں نے محکمہ سائنس او ر ٹیکنالوجی ،حکومت ہند کی خواتین کیلئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے اسکیم کے تحت وومین ٹیکنالوجی پارک (ڈبلیو ٹی پی) پروگرام پر کام کرنا شروع کیا ۔اس اسکیم کے ذریعہ انہوں نے دہرادون کی 280 دیہی خواتین کی زندگیوں کو بدلنے میں کامیاب رہیں،جنہیں انہوں نے متعددد قسم کے مخصوص سامان بنانے اور انہیں فروخت کرکے اپنا معاش کمانے کے ہنر کی ٹریننگ دی۔تکنیکی تربیت کے ذریعہ یہ خواتین بانس ،کپاس ،کھجور کے پتے جیسے مقامی سطح پر دستیاب قدرتی وسائل کی مدد سے زیبائشی اور آرائشی سامان بنانے کے قابل ہوئیں۔انہوں نے اخبار سے پنسل بناکر بیکار اشیا کو دولت میں بدلنے کاکام کیااور ادویاتی پودے اگانے کا ہنر حاصل کیا۔
ڈاکٹر آہوجہ نے بتایا ،’’مسلسل آمدنی سے ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوئی اور اب وہ اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کے مزید طریقے تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔‘‘
دوردراز کی ریاست آندھرا پردیش میں ایک اور ڈبلیو ٹی پی نے جڑی بوٹی سے لیکر غذائی اشیا اور کاسمیٹکس بنانے تک تقریباً350 دیہی خواتین کو ٹریننگ فراہم کی۔ شری پدماوتی مہیلا ودیالیم ،تروپتی کی ریٹائرڈ پروفیسر ،ڈاکٹر اے جیوتی ،جو ڈبلیو ٹی پی ٹیم کا حصہ تھیں،نے تفصیل سے بتایا کہ ٹیم نے کیسے دروازے دروازے جاکر سرمایہ کار دیہی خواتین کا پتہ لگایا اور ساتھ ہی ریاست کی مختلف اضلاع کے اسکول اور کالج جانے والی ان لڑکیوں کا پتہ لگایا جنہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئےعلم و ہنر حاصل کرنے اور زیادہ کمائی کرنے کیلئے ٹریننگ دی جاسکتی تھی۔
ڈاکٹر اے جیوتی نے بتایا،’’ہم نے 30 مصنوعات تیار کئے ہیں جس میں غذائی اشیا اور کاسمیٹکس شامل ہیں اور نمائش و تربیتی پروگرام کے ذریعہ خواتین کو ٹریننگ بھی فراہم کی۔ان میں سے زیادہ تر عورتیں مختلف مصنوعات تیار کرکے اور انہیں فروخت کرکے اچھی آمدنی حاصل کررہی ہیں۔‘‘
وومین ٹیکنالوجی پارک خواتین کی جماعتوں ،خاص کر جن کا تعلق کاشت کار برادریوں سے ہے،کیلئے ٹیکنالوجی ،ترمیم ، تطبیق اور تربیتی مراکز کے طور پر دیہی اور نیم دیہی علاقوں کے طور پر قائم کئے گئے ہیں۔ وہ کسی علاقہ میں خواتین کے معاش کے نظام کی سب سے کمزور کڑی کو بہتر کرنے کیلئے مناسب ٹیکنالوجیوں کی تعمیر اور تطبیق،کوفروغ دیتے ہیں،بہتر ٹیکنالوجی کی منتقلی کرتے ہیں اور لائیو ٹیکنالوجی ماڈل کی نمائش کرتے ہیں اور معاش کے نظام کی سب سے مضبوط کڑی پر مبنی سماجی سرمایہ کاری اور خواتین کے روزگار کو آگے بڑھاتے ہیں۔وہ ایک ایسا ماحول تیار کرتے ہیں جہاں نگراں اداروں کے سائنسداں اور ٹیکنالوجی کے ماہرین خواتین کی جماعتوں کو خود ان کے کھیتوں یا کام کے مقامات پر اپنانے اور پریکٹس کیلئے علم اور مناسب ٹیکنالوجی فراہم کرسکیں۔
خواتین کو جن اختراعی ٹیکنالوجیوں کی ٹریننگ دی گئی ہےان میں سے چند یوہیں:شریڈر مشین کو چلانا اور مینوفیکچرنگ کیلئے منتخب ای –فضلہ کے حصوں کا استعمال کرنا ،سی این سی ہاٹ وائر کٹر ،ویکیوم ڈرائنگ فلاورس اور 3 ڈی چاکلیٹ پرنٹنگ مشین ۔اس کے علاوہ خراب ہوجانے والی اشیا کو پروسیس کرنے کی ٹریننگ بھی دی جارہی ہےجیسے اناج ،پھل اور سبزیاں ،دودھ ،گوشت ،انڈے اور مچھلی کو قیمتی اشیا میں بدلنا مثلاً ناریل کا تیل ، قدرتی ناریل کا سرکہ ،ناریل کی رسی سے بنائی گئی چٹائی ،ہربل کاسمیٹکس ،پھل اور سبزیاں اور چھوٹے پیمانے پر دودھ ،موزریلا مکھن ،دودھ کی مشروبات ، گوشت اور مچھلی کے اسنیکس وغیرہ ۔ٹیکنالوجی پر مبنی اس قسم کی اشیا کی قدروں میں اضافہ سے ان کی فروخت سے ہونے والی آمدنی میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ ان مصنوعات کو طویل مدت تک محفوظ رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔
ان ڈبلیو ٹی پی کے ذریعہ ٹریننگ حاصل کرنے والی خواتین سیلف ہیلپ گروپ بنا سکتی ہیں اور خودکفیل بننے کیلئے خود اپنی چھوٹی کمپنی قائم کرسکتی ہیں۔ڈبلیو ٹی پی دیہی خواتین دیہی خواتین کو ان کی مصنوعات کیلئے بازار بھی فراہم کرتے ہیں اور انہیں نابارڈ ،ضلعی سطح کے بینکوں سے جوڑنے کے علاوہ ضلع انتظامیہ ،گاؤ ں کی پنچایت اور ریاستی دیہی معاشی مشن جیسی دیگر سرکاری اسکیموں سے بھی جوڑتے ہیں ۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ خواتین کو بااختیار بنانے کے ڈبلیو ٹی پی پروگرام کی تعریف عورتوں کو خودمختار بنانے کی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ بھی کی گئی ہے،جس نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’کمیٹی کا ماننا ہے کہ سرکاری ایجنسیوں کی مدد سے قائم کئے گئے وومین ٹیکنالوجی پارک(ڈبلیو ٹی پی) دیہی غریبوں کیلئے نعمت ثابت ہوں گے۔سستے پروجیکٹوں کی نمائش اور معاشرے کو بہتر ٹیکنالوجی کی منتقلی دیہی خواتین کے معیاری زندگی اور معاش میں بہتری لائے گی اور انہیں ضروری سرمایہ کارانہ ہنر مندی فراہم کرے گی۔ ‘‘
گزشتہ 5 سالوں میں اس اسکیم سے تقریباً 10 ہزار دیہی خواتین کو فائدہ ہوا ہے۔اب تک 28 ڈبلیو ٹی پی کو کامیابی کے ساتھ مکمل کیا جاچکا ہے اور ان میں سے کچھ اب بھی برقرار ہے اور ملک کے متعدد حصوں میں 12 پارک اب بھی چل رہے ہیں۔آنے والے دنوں میں اگر اس قسم کے مزید پارک بنائے جاتے ہیں تو ڈبلیو ٹی پی معاشرے کی سطح پر آتم نر بھر بھارت کی تعمیر میں معیاری رول ادا کرسکتے ہیں۔