پولیس نے پوسٹ گریجویٹ شوپیاں کے طالب علم کافوٹو دہشت پسند کے نام کاساتھ چسپاں کیا
پولیس کارروائی پرپوسٹ گریجویٹ طالب علم اور ان کے لواحقین نے فکرو تشویش کاا ظہار کیا
سری نگر، 14مارچ (انڈیا نیرٹیو)
پولیس کی جانب سے سرینگر میں نو دہشت پسندوں کواشتہاری ملزم قرار دینے کے معاملے نے اس وقت نیاموڑ لے لیاجب اشتہاری دہشت پسندوں میں شوپیاں سے تعلق رکھنے والے پوسٹ گریجویٹ طالب علم کافوٹو اور دہشت پسند کانام اشتہاری ملزموں میں درج کیاگیا۔جو جموں وکشمیرپولیس نے اپنے سوشل میڈیا پر وائرل کیا،طالب علم اور اس کے لواحقین نے پولیس کی اس غلطی پرشدید برہمی کا اظہا رکیاکہ ان کے لخت جگر کے مستقبل کومخدوش بنانے کی کوشش کی گئی۔
نمائندے کے مطابق جموں و کشمیر پولیس کی جانب سے شہرسرینگر میں نو دہشت پسندوں کی موجودگی اور انہیں اشتہاری ملزم قرار دینے کی کارروائی عمل میں لائی گئی، اور جموں و کشمیرپولیس نے اپنے سوشل میڈیا پر دہشت پسندوں کے نام اور فوٹو وائرل کئے ہے تاہم اس معاملے نے اس وقت نیا موڑ لے لیاجب جموں کشمیر پولیس کی جانب سے اشتہاری دہشت پسندوں کے لسٹ میں شوپیاں سے تعلق رکھنے والے ایک پوسٹ گریجویٹ طالب علم شاہد خورشید وانی والد خورشید احمدکو مطلوب دہشت پسندوں میں شامل کیاگیا۔
جموں وکشمیرپولیس کی جانب سے اشتہاری دہشت پسندوں کی جولسٹ منظرعام پرلائی گئی اس میں شاہد وانی کو متھن چھان پورہ علاقے سے قرار دیاگیا، حالانکہ جموں و کشمیر پولیس نے اشتہاری ملزموں کی لسٹ میں دہشت پسندکانام درج کیاہے، تاہم فوٹوشوپیاں کے پوسٹ گریجویٹ کاچسپاں کر دیاہے۔ جموں کشمیرپولیس کی اس کارروائی پر شاہد اور اس کے لواحقین نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کارروائی کو بد قسمتی سے تعبیرکرتے ہوئے کہاکہ اس سے ان کے لخت جگر کا مستقبل تباہ ہونے کااحتمال ہے۔
مرکزی سرکار نے جموں و کشمیرکے لوگوں کودل برداشتہ کردیا
کانگریس میں رہ کرکانگریس کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف عنقریب کارروائی عمل میں لائی جائیگی /غلام احمدمیر
پردیش کانگریس کے صدر نے کہا کہ جموں و کشمیرکے لوگ مرکزی سرکار اور جموں کشمیر انتظامیہ کی جانب سے ٹیکس لگا لگا کر تنگ آ چکے ہیں، اور لوگوں کاکہناہے کہ ان کا گناہ کیاتھا کہ انہیں ریاست سے محروم کردیاگیا۔کانگریس کے اندر جمہوریت ہونے کی ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ کانگریس کے اندر رہ کرکانگریس کی مخالفت کرنے والو ں کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ نمائندے کے مطابق پردیش کانگریس کے صدر غلام احمدمیر نے کہا کہ جہاں ملک میں لوگوں کوسہولیات فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوچکی ہے وہی جموں وکشمیر کے حوالے سے مرکزی حکومت کی تمام پالسیاں زمینی سطح پر بارآور ثابت نہیں ہورہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ٹیکس پہ ٹیکس لگایاجارہاہے ۔لوگ تنگ آ چکے ہیں اور لوگوں کاکہناہے کہ ان کاگناہ کیاتھاکہ ان سے ریاست چھین لی گئی، اور جموں وکشمیرکو ٹکڑوں میں بانٹا گیا۔کانگریس کے صدر نے کہا کہ مرکزی سرکار اڈانی اور امبانی کے ارد گرد ہی گھومتی ہے، اور ان کے منصوبوں کوپاے تکمیل تک پہنچانے میں لگی ہوئی ہے۔ جسکے نتیجے میں عام لوگوں کوایسے دلدل میں دھکیلا جارہاہے جہاں سے ان کاواپس آنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہوتا جارہاہے۔کانگریس پارٹی کے اندر جمہوریت ہونے اور ہر ایک کو اپنی بات سامنے لانے کاحق ہونے کاعندیہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ گلے شکوے ہرایک پارٹی کے اندر ہو اکرتے ہے۔
تا ہم کانگریس میں اس حوالے سے زیادہ چھوٹ دے دی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ شکایت کرنے والوں کی گردن کاٹی نہیں جاسکتی ہے، تا ہم کانگریس کے اندر رہ کرکانگریس کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف وقت پر کارروائی بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پارٹی کے اندر مسائل کو حل کیاجاسکتاہے،تاہم ایسے معاملات کو سڑکوں پر لانے والے پارٹی کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے ہیں۔پردیش کانگریس کے صدر نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے جموں ڈیکلریشن کے نعرے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم جموں وکشمیرکے ساتھ ساتھ ملک کی تعمیرو ترقی کے حوالے سے ڈکلریشن کے متمنی ہے، تا ہم جموں وکشمیرمیں بھارتیہ جنتا پارٹی نے جوکچھ کیاہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے لوگ طرح طرح کے مشکلات سے دو چار ہیں، اور ان پر آ ئے دن نئے نئے ٹیکس لاگو کرنے کی کاروائیاں عمل میں لائی جارہی ہے۔
پردیش کانگریس کے صدر نے کہا کہ کانگریس پارٹی ملک کے دوسری ریاستوں کے مقابلے میں جموں کشمیرمیں کافی مضبوط مستحکم دکھائی دے رہی ہے۔مقامی لیڈرو ں کوایک دوسرے کی مدد کرنے کھنچا تانی کم کرنے کے لیے اپنارول اد اکرنا ہوگا۔ تاکہ لوگوں کے جومسائل ہے انہیں زوروشور سے اُجاگر کیاجاسکے۔انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیرمیں مہنگائی کے خلاف اور لوگوں کوراحت پہنچانے کے سلسلے میں کانگریس نے 45دنوں کااحتجاجی پروگرام مرتب کیاہے جس پرمن وعن عمل کی جارہی ہے، اور جموں و کشمیرکے ہر خطے میں کانگریس پارٹی کی جانب سے سرکار کی غلط پالسیوں کے خلاف احتجاج جاری ہے۔