پروفیسر محمد ظفرالدین کا انتقال اردو دنیا کا ناقابل تلافی نقصان
مرحوم اپنے آپ میں ایک انجمن تھے،اُردو یونیورسٹی میں منعقدہ تعزیتی نشست سے اہل علم و دانش کا خطاب
حیدرآباد،10 اپریل (پریس نوٹ) مرحوم پروفیسر محمد ظفرالدین ایک انتہائی سنجیدہ، محنتی اور معتبر شخص تھے جن میں اعلیٰ درجے کی انتظامی صلاحیتیں موجود تھیں، انہیں جس عہدہ پر مامور کیا جاتا،دل سے کام کرتے۔ اپنے خلوص اور بے لوث محبت کی بنا پر وہ اپنے چاہنے والوں کے دل ودماغ پر ہمیشہ چھائے رہیں گے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ ، وائس چانسلر انچارج، اردو یونیورسٹی نے مرحوم پروفیسر ظفرالدین کی یاد میں کل شام منعقدہ ایک آن لائن تعزیتی نشست میں کیا۔ اس تعزیتی نشست کا انعقاد مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے مرکز برائے مطالعات اردو ثقافت اور ڈائرکٹوریٹ آف ٹرانسلیشن اینڈ پبلی کیشنز کی جانب سے کیا گیا تھا۔پروفیسر ظفرالدین مرحوم یونیورسٹی کے ان دو اہم مراکز کی تادمِ حیات قیادت اور خدمت کرتے رہے۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج مانو نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم جذبات کو قابو میں رکھنے کا سلیقہ جانتے تھے۔ چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی اور یکسوئی سے اپنا کام کرتے رہتے تھے۔ پروفیسر مظفر علی شہ میری ، سابق وائس چانسلر عبدالحق اردو یونیورسٹی، کرنول نے نمناک آنکھوں سے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے مشورے میرے لئے بحیثیتِ وائس چانسلر بہت کارآمد رہے اور آپ کی اچانک موت کا بے حد صدمہ ہوا ہے۔ اظہار تعزیت کرنے والوں میں ہندوستان کے طول و عرض سے لوگ شامل تھے۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ابن کنول نے مرحوم کو یادکرتے ہوئے کہا کہ جریدہ ادب و ثقافت کا اجرا و تسلسل مرحوم کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ پروفیسر فاطمہ بیگم پروین، سابق صدر ، شعبہ اردو،عثمانیہ یونیورسٹی نے پروفیسر ظفرالدین کے اچانک انتقال پر غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا مرحوم نے ہررشتہ کو ایسا نبھایا کہ آج ہر آنکھ سوگوار ہے۔ آپ نے مادر علمی سے بھی اپنا رشتہ برقرار رکھا اور حیدرآبادیوں کو بھی اپنا گرویدہ بنالیا۔ پروفیسر بیگ احساس ، سابق صدر شعبہ اردو ، حیدرآباد یونیورسٹی نے ان کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سنجیدگی، نرم گفتاری، بردباری اور اختلافی مسائل سے پرہیز کرنا مرحوم کا خاصہ تھا۔اس آن لائن تعزیتی نشست میں بڑی تعداد میں مرحوم کے چاہنے والوں نے خراج عقیدت پیش کیا جن میں پروفیسر فضل اللہ مکرم، صدر شعبہ اردو ، حیدرآباد یونیورسٹی، پروفیسر ریاض احمد، کشمیر یونیورسٹی؛ ڈاکٹر محمد کاظم، دہلی یونیورسٹی؛ ڈاکٹر عبدالصمد، اورنگ آباد کے علاوہ اردو یونیورسٹی سے پروفیسر فاروق بخشی، پروفیسر خالد مبشر الظفر، پروفیسر علیم اشرف جائسی ،پروفیسر فہیم اخترندوی، ڈاکٹر احمدخان، ڈاکٹر اسلم پرویز، ڈاکٹر بی بی رضاخاتون، ڈاکٹر شمس الہدی ، ڈاکٹر محمود کاظمی، ڈاکٹر فیروز عالم، ڈاکٹر امتیاز عالم، ڈاکٹر ظفر گلزار، ڈاکٹر ثمینہ کوثر ،ڈاکٹر کفیل احمد ودیگر شامل تھے۔ نشست میں مرحوم کے کارناموں خصوصا ًاردو زبان، ترجمہ اور صحافت کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی اور اس تعلق سے ایک خصوصی پروگرام کے انعقاد کی ضرورت پر زور دیا گیا۔یہ بھی اعادہ ہوا کہ اردو زبان میں نصابی کتب کی تیاری و اشاعت آپ کا خواب تھا جسے مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ شرکا میں سے ہرایک کا احساس تھا کہ موصوف ایک حلیم الطبع، خوش مزاج، خوش گفتار اور بردبار ومخیرانسان تھے جو اپنی گوناگوں خوبیوں کے سبب ذاتی اور پیشہ ورانہ دونوں محاذوں پر کامیاب رہے۔ آپ کی وفات نہ صرف اردو یونیورسٹی بلکہ پوری اردو دنیا کا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔تمام مقررین نے دکھ کی اس گھڑی میں مرحوم کے ارکان خاندان بالخصوص ان کی شریک حیات ڈاکٹر مسرت جہاں سے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے مرحوم کے درجات کی بلندی کی دعا کی۔ مرحوم کے بھائی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو کے صدر شہزاد انجم نے اس تعزیتی نشست کو اختتام تک پہنچاتے ہوئے کہا کہ مرحوم کنبہ پرور شخص تھے۔ ان کی پوری زندگی محنت و مشقت سے عبارت رہی اور ان میں احساس ذمہ داری بہ درجہ اتم موجود تھی۔ مرحوم نے اپنا کیرئیر روزنامہ قومی آواز میں بحیثیت صحافی شروع کیا اور ترقی کرتے کرتے اردو یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے تک پہنچے۔ آپ کا تعلق ضلع گیا، بہار سے تھا لیکن حیدرآباد کو اپنا وطن ثانی بنایا اور حیدرآباد نے انہیں بے پناہ محبت و شفقت دی اور یہاں تک کہ آخر کار اپنی آغوش میں سمولیا۔ ڈاکٹر احمد خان نے تجویز پیش کی کہ ادب و ثقافت میں پروفیسر محمد ظفر الدین پر ایک گوشہ نکالا جائے۔ انہوں نے نظامت کے فرائض بھی انجام دیئے ۔ ڈاکٹر شمس الہدی کی دعائے مغفرت پر نشست کا اختتام عمل میں آیا۔ جناب دیداراللہ کی تلاوت سے نشست کا آغاز ہوا تھا۔