مولانا انیس اصلاحی کا انتقال ملت اسلامیہ کا عظیم خسارہ
ڈاكٹر محمد اكرم ندوى،آكسفورڈ
بسم اللّه الرحمن الرحيم
آه مولانا انيس اصلاحى!
آه! اس ماه مبارك (رمضان سنہ 1442ہجری) كے شروع ميں مولانا انيس احمد اصلاحى بهى الله كو پيارے ہوگئے، سخت صدمہ ہے، يقين نہيں آتا كہ وه باغ وبہار وجود خزاں كا شكار ہوگيا، وه جو روتے دلوں كو ہنسا تا تها سب كو روتا چهوڑ كر چل بسا، اس نے غم وحزن كى بستيوں كو خيرباد كہا،اور قفسہائے نفرت وحسد سے نجات پائى، اگر اس نے شہرت كا مصنوعى لباده اوڑها ہوتا تو دنيا اسے بلبل شيراز وطوطى ہند كا لقب ديتى، اس كى مجلسوں كو سوق عكاظ كہا جاتا، اور اسے پطرس بخارى عصر اور شوكت تهانوى دہر كا خطاب ملتا، اس كا ماتم كيا جاتا، نوحہ خوانى ہوتى اور مرثيے كہے جاتے، مگر يہ سب كچھ نہيں ہوا كيوں کہ وه خامل الذكر تها، اور دنيائے بنى نوع انساں ميں گمنامى جو کہ سر خيل خصال حميده ونگينۂ صفات ستوده ہے، عيب شمار ہوتى ہے۔
آج صبح اٹها تو انيس صاحب كى ياد ستانے لگى، ان كے ساتھ بيتے ہوئے لمحے چٹكياں لينے لگے ، سوچا كہ چند سطريں لكھ کر اپنا غم غلط كرلوں، انيس صاحب سرائے مير كے رہنے والے تهے، عمر ميں شايد مجھ سے دس سال يا كچھ زياده بڑے ہوں ، مدرسۃ الاصلاح سے فراغت كے بعد وہيں مدرس ہوگئے تهے، ذہين اور با استعداد عالم تهے، مزاج مجلسى تها، بے تكلفى ان كى خصوصيت تهى، مرنجاں مرنج تهے، ہميشہ مسكراتے رہتے، لطيفوں پر لطيفے كہتے، اور سننے والے ہل من مزيد كى صدا لگا رہے ہوتے۔
سنہ 1986 ميں برادران مكرم مولانا حشمت الله ندوى اور مولانا خطيب عالم ندوى كى معيت ميں جامعۃ الملك سعود رياض ميں ٹيچرز ٹريننگ كے ايك پروگرام ميں جانا ہوا، يہ پروگرام چار مہينے كا تها، اس كا كورس ہلكا پهلكا تها، اس كے بہانے عمره اور زيارت كا شرف حاصل ہوا، اور بہت سى اہم شخصيات سے ملاقات ہوئى، يونيورسٹى كاماحول زياده علمى نہيں تها، ايك دن اچانك انيس صاحب سے مڈبهيڑ ہوگئى، وه بهى يونيورسٹى ميں كوئى كورس كر رہے تهے، نسبت علمى وقربت وطنى نے ہمارا رشتہ استوار كرديا، اور اس غريب الديارى ميں ہمارى صبحيں نكهر گئيں اور شاميں رنگين ہو گئيں۔
خالى اوقات ميں ہم انيس صاحب كے كمره ميں جمع ہوتے، ہر شے سے فراغت ہوتى، ياران با ذوق كا ہجوم ہوتا، تفريحى باتيں ہوتيں، ادب اور فنون لطيفہ زير گفتگو ہوتے، انيس صاحب كو اردو شاعرى پر عبور تها، اشعار پڑهتے، ان پر تبصرے كرتے، كبهى فنى اور كبهى غير فنى تنقيدسے انجمن كو لالۂ زار كرتے ، اساتذه كے كلام كا دور چلتا، شاعرى كے نئے رنگ وآہنگ بهى زير بحث آتے، وادى نور تهيں وه مجلسيں، مثال تجلى طور تهيں وه محفليں، غريب الديار طلبه كا سامان تسلى تهى وه صحبت انيساں، ايك خواب بلكہ رشك مہتاب وآفتاب تهى وه ہمنشينى محرماں۔
ہندوستانى فلموں كے متعلق انيس صاحب كى معلومات بہت وسيع اور گہرى تهى، اس وقت تك ميں نے كوئى فلم نہيں ديكهى تهى، اس لیے اس موضوع كى ہر بات ميرے لئے بالكل نئى تهى، ان كى معلومات سے ميں متاثر تو تها ہى، ليكن زياده مرعوبيت اس سے تهى كہ انيس صاحب فلم پروڈيوسرز پر استادانہ گفتگو كرتے، ايكٹروں پر تبصرے كرتے اور مختلف فلموں كے درميان موازنہ كرتے، ان كى صحبت سے فلم ديكهنے كى خواہش تو نہيں ہوئى، البتہ وه دنيا جو اب تك ميرے لیے بالكل بند تهى كهل گئى، فلم كى طرف بے رغبتى كى وجہ يہ ہے كہ فلم ميں وقت بہت زياده ضائع ہوتا ہے، جتنى دير ميں ايك فلم ديكهى جاتى ہے اتنى دير ميں اچها خاصہ مطالعہ كيا جاسكتا ہے، اور مجهے ہميشہ ہر اس چيز سے الجهن رہى ہے جس ميں وقت زياده صرف ہو اور فائده كم۔
انيس صاحب كے پاس اردو ناولوں كا انبار تها خاص طور سے ابن صفى كے ناولز كثير تعداد ميں تهے، ہندوستانى اور پاكستانى طلبہ جب رياض سے جانے لگتے تو اس طرح كى كتابيں بطور تركہ انيس صاحب كو ملتيں، ميں نے اب تك بہ مشكل كوئى ناول پڑها تها، فراغت تهى ہى، اس لیےناولوں كے پڑهنے سے دل چسپى بڑهى، مدرسوں ميں فلسفہ، كلام اور اصول كى كتابيں پڑهكر ذہن كليات كا اسير ہوجاتا ہے، اور پهر انسان كى گفتگو تجريدى ہوجاتى ہے، جس طرح تجريدى آرٹ كسى معمے سے كم نہيں اسى طرح بہت سے ماہرين فنوں علماء كى باتيں بهى معما ہوتى ہيں، علما اگر اچهے قصے، ناول اور افسانے پڑهيں تو ان كى نگاہيں جزئيات كى گرفت كرسكيں، ان ناولوں كو پڑھ كر پہلى مرتبہ جزئيات نگارى كى اہميت مجه پر كهلى، ياد آرہا ہے كہ اسى زمانه ميں يونيورسٹى ميں ايك چهوٹى سے كہانى عربى ميں لكهى، انشاء كے استاد نے اسے بہت سراہا، در حقيقت اس كہانى كى كاميابى ان ناولوں كے فيض كى رهين منت تهى۔
رياض سے واپسى كے بعد ندوه كى زندگى ميں ايك بار پهر ناولوں سے رشتہ منقطع ہوگيا ، اگرچہ اس ذوق كى تسكين ميں نے دوسرى ادبى تحريروں سے پورى كى، انگلينڈ آنے كے بعد دوباره انگريزى ، اردو اور عربى ناولوں كا مطالعه كيا، ان كے مطالعه سے قوت مشاہده ميں ترقى ہوئى، اور عبارت آرائى ميں جان پڑى، حال ہى ميں ايك جزئيات آرا ندوى (مولانا فاروق صاحب آسامى) سے واقفيت ہوئى، اور يه خيال شدت اختيار كرگيا كه مدرسوں كے نصاب ميں اس كى طرف توجہ ہونى چاہیے، ورنہ علما كے اندر ايك ايسى كمى ره جاتى ہے جو انہيں مشاہدۂ جمال سے بے پرواه اور ذوق حسن سے محجوب كرديتى ہے۔
قيام ندوه كے دوران جب بهى مدرسۃ الاصلاح جاتا، انيس صاحب سے ضرور ملتا، وه مجهے كينٹين لے جاتے، چائے پلاتے ، اور اپنى دل چسپ گفتگو سے پرانى مجلسوں كى ياد تازه كرديتے، ان مجلسوں ميں سوز وگداز ہوتا اور بصيرت ومسرت كا سامان ہوتا۔
مولانا شكيل اعظمى صاحب كا كہنا ہے كہ انيس صاحب ان سے سينير تهے اور بہت با صلاحيت تهے، ہمارے اطراف كى بستيوں ميں كتنے با صلاحيت علما پيدا ہوئے، انہيں مناسب ماحول نہيں ملا، اور ان كى صلاحيتيں ضائع ہوگئیں، انيس صاحب بهى انہيں باكمال ہستيوں ميں سے تهے ، زمانہ نے ان كى كما حقه قدر نہيں كى، بلكه شايد يہ كہنا زياده صحيح ہے كہ انيس صاحب نے خود كو نہيں پہچانا، اور اپنے جوہر كو ظاہر كرنے سے غير معمولى استغنا برتا ،آه وه انجم وكواكب! جو صرف اس لیے جگمگا نہ سكے كہ انہيں كوئى فلك نہ ملا، اگر انہيں آسماں ملتا تو وه ہم عنان مہر وماه ہوتے، آه گلہائے گونا گوں! جو اس لئے اچهى طرح نہ كهل نہ سكے كہ انہيں نہ كوئى گلشں ملا اور نہ كوئى مالى، ورنہ وه بهى بہار صبح كى رنگينيوں ميں عطر بيز ہوتے ، وه نسيم كے مست جهونكوں سے سرشار ہوتے، اور عنادل وطائر خوش الحان ان كے ارد گرد محفل سجاتے۔
انيس صاحب اگر محدث وفقيه ہوتے تب بهى ميں ان كى اتنى ہى قدر كرتا جتنى اس وقت كر رہا ہوں، كيونكه مجهے ربط ہے اہل فضل و كمال سے ، خواه ان كا موضوع كچھ بهى ہو، نياز فتح پورى، جوش مليح آبادى، طہٰ حسين وغيره پر علما كى تنقيديں بجا ہيں، اور مجهے ان تنقيدوں سے سو فيصد اتفاق ہے، پهر بهى ميں ان يگانہائے روزگار سے نفرت نہيں كرسكا، اس كى وجہ نہ دينى بے حميتى ہے، اور نہ اصول ولاءوبراء سے انحراف، سيدهى بات يه ہے كه حسن جہاں بهى ہو ميں اس كى كشش محسوس كرتا ہوں، كمال كسى جگہ ہو ميں اس كى قدر دانى پر خود كو مجبور پاتا ہوں، يہ وه راز سرمدى اور سر ملكوتى ہے جس كے محرم زمانہ ميں بہت كم ہيں۔
انيس صاحب عالم تهے، اديب تهے، با ذوق تهے، اور ان سب چيزوں سے بڑھ كر وه ايك اچهے انسان تهے، ان كا دل جوہر محبت وخلوص سے آشنا تها، وه دوستى نبهاتے ہى نہيں تهے بلكہ دوستى كو معراج پر پہنچانے كا ہنر جانتے تهے، ان كى مجلسوں كا انداز نرالاہوتا، نہ نفرتيں ہوتيں نہ كدورتيں، نہ لعنتيں ہوتيں نہ تہمتيں، اور نہ محروميوں كى شكايتيں، نہ كسى سے جلن اور نہ كوئى كينہ، جہاں نہ نفس پرست ہوتے ، نہ اہل پندار ، جو بے رحموں سے پاك ہوتيں، اور بيدردوں سے بيگانہ، وه مجلسيں جو گمنام انسانوں كے خلوص ومحبت كى شہادت رقم كرتيں۔
مجهے اس كا اعتراف ہے كہ ميں انيس صاحب كى رفاقت كا حق ادا نہ كرسكا، ميرى نگاه شوق كو شكايت ہے كہ ميں نے انہيں جى بهر كر نہيں ديكها، كتنى ہوس ہے ان نگاہوں كو انہيں بار بار ديكهنے كى، جب مغرب كى ہوائيں مجهے اداس كرتى ہيں تو سوچتا ہوں کہ كاش يہاں كوئى انيس ہوتا، جو مونس جان وغمخوار رواں ہوتا، جو تنہائى كے ماحول كى وحشت دور كرديتا، اور ايسى فضا قائم كرديتا جہاں نہ غم كى رسائى ہوتى اور نہ الم كا گزر ۔
انيس صاحب اس دار "لا خوف عليہم ولا ہم يحزنون" كے لیے روانہ ہو چكے ہيں، اے اله العالمين ان پر رحم فرما، ان كے درجات بلند كر اور جنت الفردوس ميں انہيں جگہ دے، آمين
مولانا انیس اصلاحی اپنے عزیز ترین دوستوں کے ساتھ( اللہ پاک سب کی مغفرت فرمائے)