عالمی دباؤ اور فلسطینی مزاحمت کے سامنے اسرائیل نے گھٹنہ ٹیکا
جمعہ کی شب سے جنگ بندی کا اعلان
عالمی برادری اور مسلم ممالک کے دباؤ اور فلسطین کے گھٹنے نہ ٹیکنے کے عزم کے سبب اسرائیل نے گزشتہ 11 روز سے جاری حملہ کو یک طرفہ طور پر روکنے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیل نے جمعرات کے آخر میں اس بات کی تصدیق کی کہ سلامتی کابینہ نے متفقہ طور پر غزہ میں جنگ بندی کی منظوری دے دی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق، غزہ کی پٹی میں مزید کارروائی کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے سلامتی کابینہ کا اجلاس آج شام ہوا۔ وزراء نے مصر کے غیر مشروط جنگ بندی کے اقدام کو قبول کرنے پر اتفاق کیا ہے اور ایک گھنٹہ کے بعد اس کا اطلاق ہوگا۔مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، اعلی سطح کی سیکیورٹی کابینہ میں وزرا نے متفقہ طور پر غزہ میں جنگ بندی کے حق میں ووٹ دیا۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی سکیورٹی کابینہ نے غزہ کی پٹی میں گزشتہ 11 روز سے جاری فوجی آپریشن کو یک طرفہ طور پر روکنے کی منظوری دے دی ہے۔اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سیکورٹی کابینہ نے یہ فیصلہ امریکہ کے شدید دباؤ کے پیش نظر کیا ہے۔
العربیہ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق فلسطینی تنظیم حماس کے ایک عہدہ دار نے بتایا ہے کہ اسرائیل اور حماس جمعہ کو علی الصباح 2 بجے (جی ایم ٹی 2300 بجے جمعرات) سے باہمی طور پر اور بیک وقت جنگ بندی کریں گے۔
واضح رہے کہ مصر اسرائیل اورحماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے کوششیں کررہا تھا۔اس کے ایک عہدہ دار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیلی حکومت نے مصرکو غزہ میں اپنی فوجی کارروائی ختم کرنے سے متعلق فیصلے سے مطلع کردیا ہے۔اس ضمن میں اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ کے اجلاس کے بعد فیصلے کا باضابطہ اعلان متوقع ہے۔
اس سے پہلے مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے امریکی صدرجو بائیڈن سے فون پر گفتگو کی تھی اور ان سے فلسطینی علاقوں میں تشدد کو روکنے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
ادھر واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ”جنگ بندی کے لیے تحریک واضح طور پر حوصلہ افزا ہے۔امریکہ تنازع کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوششیں کررہا ہے۔“
غزہ میں اسرائیل کے گذشتہ 11 روز سے جاری فضائی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 230 ہوگئی ہے۔اسرائیلی طیاروں کی تباہ کن بمباری کے نتیجے میں غزہ شہر کا انفرااسٹرکچر، سڑکیں اور عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں اوروہاں انسانی صورت حال ابتر ہوچکی ہے۔ادھراسرائیل میں غزہ سے راکٹ حملوں میں 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
قبل ازیں فلسطین اور اسرائیل کے معاملے پر اقوام متحدہ کا جنرل اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ یہ اجلاس ترکی، فلسطین، پاکستان اور دیگر ممالک کی درخواست پر طلب گیا تھا۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے عوام کی آواز خاموش نہیں کرائی جاسکتی۔فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے خون ریزی کا سلسلہ جاری ہے، لوگوں کی ایک تعداد جاں بحق ہوچکی ہے، شہریوں کی کھانا، پانی اور صحت کی سہولیات تک رسائی نہیں۔انہوں نے کہا کہ 'ابھی جب ہم بات کر رہے ہیں تو وہاں فلسطین میں لوگوں کو بلا تفریق مارا جا رہا ہے، غزہ کے ہر گھر میں موت کا غم ہے، جہاں اندھیرا ہے اور صرف اسرائیلی دھماکوں کا راج ہے'۔
شاہ محمود قریشی نے اسرائیلی بمباری سے الجزیرہ اور اے پی سمیت دیگر میڈیا اداروں کے دفاتر تباہ کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہے فلسطین جہاں اسرائیل پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے معصوم فلسطینیوں کونشانہ بناتا ہے، دہشت زدہ کرتا ہے، یہاں تک کہ میڈیا کو خاموش کرادیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ کہاجائے اب بہت ہوگیا، فلسطین کے عوام کی آواز کوخاموش کرایا جاسکتا ہے اور نہ کروایا جاسکے گا، ہم اسلامی دنیا کے نمائندے یہاں ان کی بات اور ان کے لیے بات کر نے آئے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ 'خوف ناک' بات ہے سلامتی کونسل عالمی امن وسلامتی کے قیام کی اپنی بنیادی ذمہ داری انجام دینے کے قابل نہیں اور یہاں تک کہ جنگ بندی کا مطالبہ کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ نہتے فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان طاقت کے توازن کا شائبہ تک نہیں ہے، فلسطین کے پاس نہ کوئی بری فوج ہے، نہ بحریہ ہے اور نہ ہی کوئی فضائیہ ہے، دوسری جانب اسرائیل ہے جو دنیا کی طاقت ور ترین فوجی قوت کا حامل ہے، یہ جنگ قابض فوج اورمقبوضہ عوام کے درمیان ہے۔
وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس تناظر میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نومبر 1970 میں جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 2649 میں اسی ایوان نے نوآبادیاتی اور غیرملکی جبر و تسلط میں رہنے والے عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت اور اس کی بحالی کی جدوجہد میں ہر قسم کے دستیاب ذرائع استعمال کرنے کو جائز تسلیم کیا گیا ہے۔