چیف آف آرمی اسٹاف نے کہا ، دہشت گردی اور شورش جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا چیلنج ہے
نئی دہلی ، 30 مئی (انڈیا نیرٹیو)
آرمی چیف جنرل ایم ایم نرونے نے کہا کہ جنوبی ایشیامیں دہشت گردی اور انتہا پسندی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان جب تک ان کے خلاف ٹھوس کاروائی نہیں کرتا اور اپنی پالیسی کو یکسر تبدیل نہیں کرتا ہے ، اس وقت تک تعلقات میں بہتری نہیں آسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال فروری کے آغازمیں ایل او سی پر سکیورٹی کی صورتحال میں ایک بہت بڑی بہتری آئی ہے لیکن دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان کواپنی سرزمین سے دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف "ٹھوس کارروائی" کرناہو گا۔
بھارتی آرمی چیف نے ایک انٹرویو میں کہا کہ جنگ بندی پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے طویل راستہ میں پہلا قدم ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ جنگ بندی جاری رہے اور دوطرفہ تعلقات بہتر ہوں۔ جنرل نرونے نے 778- کلومیٹر لائن آف کنٹرول کے ساتھ گزشتہ تین ماہ میں دراندازی کی کوششوں کی تعداد میں تیزی سے کمی، اور ایک 198- کلومیٹر بین الاقوامی سرحد پرجنگ بندی کی صورت حال کی بہتری پراطمینان ظاہرکیاہے۔
جنرل ایم ایم نرونے نے کہا کہ پاکستان کو سرحد پار سے پراکسی جنگ کو فروغ دینے اور اس کے علاقے پی او جے کے میں سرگرم 18-20 دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں کو تباہ کرکے ہندوستان کے بنیادی خدشات کو دور کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک پاکستان ان دہشت گردوں کے اہداف کے خلاف ٹھوس کارروائی نہیں کرتا ہے اور اس کی پالیسی میں یکسر تبدیلی نہیں آتی ہے ، تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔ ابھی بھی قریب 220 عسکریت پسند سرحد کے قریب موجود ہیں ، جن میں 80-90 ' بین الاقوامی ' دہشت گرد بھی شامل ہیں۔
ہمارے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ پاکستان اور پی او جے کے میں دہشت گردی کے ڈھانچے کو مسمار کردیا گیا ہو۔ جیش محمد ، لشکر طیبہ ، البدر اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں جو ابھی بھی جموں و کشمیر کے پی او کے سے سرگرم ہیں۔ اس کے علاوہ متحدہ جہاد کونسل ، لشکرِ عمر ، حرکت المجاہدین ، سپاہ صحابہ ، حزب المجاہدین وغیرہ ، پاکستان میں قیام کرکے اپنی دہشت گردی کی کاروائیاں کرتے ہیں۔