عہد حاضر میں آسمان اردو شاعری کے سب سے درخشاں ستارے کا نام اظہر عنایتی ہے۔ دبستان رامپور کا یہ نمائندہ شاعر آج عالمی سطح پر اردو کا نمائندہ شاعر بن چکا ہے۔ اظہر عنایتی کا کمال یہ ہے کہ وہ ایک طرف مشاعروں میں کامیاب ترین شاعر تسلیم کئے جاتے ہیں تو دوسری طرف علمی و ادبی حلقے میں بھی ادب و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ جس طرح جگر مراد آبادی، فراق گورکھپوری اور جوش ملیح آبادی اپنی تمام تر علمی و ادبی مقام و مرتبے کے ساتھ مشاعروں کے اسٹیج پر بھی بے حد کامیاب تھے۔ اسی طرح اظہر عنایتی بھی علم و ادب کی تابناکی کے ساتھ مشاعروں کے اسٹیج پر بھی نصف صدی سے حکمرانی کر رہے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ امریکہ، کناڈا، برطانیہ، سعودی عرب، دبئی، بحرین، قطر، کویت، پاکستان، شارجہ اور العین جیسے ممالک میں بھی اردو شاعری کا پرچم بلند کیا ہے۔ گانے بجانے والوں کی بھیڑ میں اظہر عنایتی نے اچھی اور سچی شاعری سنا کر مشاعروں کے اسٹیج پر داد وصول کی ہے۔ انھوں نے نئی نسل کی ذہنی تربیت کی ہے۔ اظہر عنایتی کے یہاں تمام تر جدت کے باوجود روایات کا بڑا احترام ہے۔ انھوں نے نئی نسل کو اپنی روائتوں سے جوڑنے کا کام بھی کیا ہے۔ بے پناہ مقبولیت کے باوجود اظہر عنایتی اپنی زمین سے جڑے رہے۔ ان کے ہم عصروں کا خیال ہے کہ وہ نہ صرف ایک اچھے اور بڑے شاعر ہیں بلکہ وہ ایک بہت اچھے انسان بھی ہیں۔ مٹتی ہوئی قدروں کے امین اظہر عنایتی رامپور میں مقیم ہیں۔ہندوستان کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کا ایک اہم ترین شہر ہے رامپور۔ یہ تہذیبی شہر رامپور اظہر عنایتی کا وطن ہے۔ رام پور میں اظہر عنایتی بستے ہیں اور اظہر عنایتی میں رام پور بستا ہے۔
موجودہ دور میں ہندوستان کے عظیم ترین تعلیمی ادارے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو کے صدر پروفیسر شہزاد انجم ایک زمانے تک بہ سلسلہ ملازمت رام پور میں مقیم رہے ہیں۔ پروفیسر شہزاد انجم عہد حاضر کے ممتاز نقاد ہیں۔ علمی و ادبی حلقے میں ان کا خاص وزن ہے۔ تنقید، تحقیق، تدوین اور ترجمہ کے میدان میں پروفیسر شہزاد انجم کی خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر کیا گیا ہے۔ بہت پہلے انھوں نے”اظہر عنایتی: ایک سخن ور“ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی تھی۔ پروفیسر شہزاد انجم خود شعرو ادب کا بہت ستھرا ذوق رکھتے ہیں اور اظہر عنایتی کے شعری مقام و مرتبہ سے واقف بھی ہیں اسی لئے وہ ایک بہترین کتاب ترتیب دے سکے ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ نوجوان صحافی و شاعر ڈاکٹر شفیع ایوب کا ایک تبصرہ گزشتہ برس سرخیوں میں رہا۔ یہ تبصرہ پروفیسر شہزاد انجم کی مرتب اسی کتاب ”اظہر عنایتی: ایک سخن ور“ پر تھا۔ یہ ایک بیلنس تبصرہ ہے۔ غیر جانب داری سے اظہر عنایتی کے فکر و فن پہ بات کی گئی ہے۔ ہم ڈاکٹر شفیع ایوب، محترم اظہر عنایتی اور پروفیسر شہزاد انجم کے شکریئے کے ساتھ یہ تبصرہ انڈیا نیریٹو اردو کے باذوق قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔ (ٹیم انڈیا نیریٹو، اردو، نئی دہلی)
نام کتاب : اظہر عنایتی: ایک سخنور
مرتب : پروفیسر شہزاد انجم
ضخامت : 304صفحات
قیمت : 300روپے
ناشر/ تقسیم کار :پروین پبلی کیشنز،چرنی روڈ، ممبئی
اظہر عنایتی کا شمار عہدِ جدید کے معتبر اور مستند شعراء میں ہوتا ہے۔ دبستانِ رام پور کے نمائندہ شعراء کی مختصر ترین فہرست بنائیں گے تب بھی اس میں اظہر عنایتی کا نام ضرور شامل ہوگا۔ اظہر عنایتی اپنے لہجے سے پہچانے جاتے ہیں۔ دبستانِ دہلی، دبستانِ لکھنؤ اور دبستانِ عظیم آباد کی طرح دبستانِ رام پور بھی اپنی ایک خاص ادبی اور لسانی روایت کا امین اور پاسدار ہے۔ رام پور کی شاعری زبان کی شاعری کے حوالے سے بھی اپنی پہچان رکھتی ہے۔ اسی رامپور کے ایک اہم شاعر اظہر عنایتی کہتے ہیں :
یہ رنگ زار ہے اپنا پروں پہ تتلی کے
دھنک ہو خود میں تو پھولوں سے استفادہ کیا
اظہر عنایتی کا پورا نام اظہر علی خاں اور تخلص اظہر ہے۔ 15 اپریل 1946ء کو پیدا ہونے والے اظہر علی خان نے اپنے شعری سفر کا آغاز محض بارہ سال کی عمر میں 1958 ء میں کیا۔ استاد شاعر محشر عنایتی کے شاگرد اظہر عنایتی نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن انکے اصل جوہر غزل میں کھلتے ہیں۔ ’خود کلامی‘ اور ’اپنی تصویر‘ جیسے مجموعۂ غزلیات نے خاصی شہرت حاصل کی۔ ان کے ان شعری مجموعوں کو علمی و ادبی حلقوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور عوام نے بھی پذیرائی کی۔ ایسے شعراء کی تعداد یقینا بہت کم ہے جو عوامی مقبولیت کے ساتھ ساتھ ادبی وقار بھی رکھتے ہوں۔ اظہر عنایتی ہندوستان بھر میں اور درجنوں دیگر ممالک میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں بیحد پسند کئے جاتے ہیں۔ کلام کی ندرت اور پڑھنے کا خاص انداز انھیں ہر خاص و عام میں مقبول بناتا ہے۔ مشاعروں کے کامیاب ترین شعراء میں اظہر عنایتی کا شمار ہوتا ہے۔ دوسری طرف دانش گاہوں سے تعلق رکھنے والے بگڑیل نقاد بھی ان کی شاعری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
زیرِ تبصرہ کتاب کے مرتب پروفیسر شہزاد انجم کا شمار نئی نسل کے معتبر نقادوں میں ہوتا ہے۔ پروفیسر شہزاد انجم کا تعلق اس عظیم دھرتی ’گیا‘سے ہے جہاں بھگوان بدھ کو گیان پراپت ہوا تھا۔ مگدھ یونیورسٹی بودھ گیا، بہار سے ایم اے کرنے کے بعد شہزاد انجم نے دہلی یونیورسٹی سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے شعبۂ اردو میں پروفیسر شہزاد انجم ایک زمانے تک رام پور میں سکونت پذیر تھے۔ رامپور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہوئے وہ مسلسل تحقیقی اور تنقیدی کاموں میں مصروف رہے۔ رام پور اور اہلِ رام پور سے وہ بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ عام طور پر اہلِ ادب یہ سمجھتے ہیں کہ مرتب کا کام بہت آسان ہوتا ہے۔ جبکہ معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ مرتب میں ایک دیدہ ور نقاد کی فہم اور ایک محقق کی نظر ہونی چاہئے تبھی وہ اپنے کام سے انصاف کر سکتا ہے۔ وہ غالب کا طرفدار بھی ہو تو قباہت نہیں۔ہاں سخن فہم ضرور ہونا چاہئے۔ اور کہنے کی ضرورت نہیں کہ پروفیسر شہزاد انجم میں یہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ ’آزادی کے بعد اردو شاعری‘ اور’دیدہ ور نقاد: گوپی چند نارنگ‘ جیسی کتابیں مرتب کر کے اہلِ علم و ادب سے خراجِ تحسین حاصل کر چکے ہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب بھی مرتب کے حسنِ ترتیب کی عکاس ہے۔
کتاب میں کل سات ابواب ہیں۔ بابِ اوّل ’عظیم لوگ، یادگار تحریریں‘ کے تحت تیرہ مضامین شاملِ کتاب ہیں۔ اس میں احمد ندیم قاسمی، مالک رام، احسان دانش، ابواللیث صدیقی، قمر رئیس، شمیم حنفی، نثار احمد فاروقی اور گوپی چند نارنگ جیسی عظیم شخصیات نے اظہر عنایتی کے فکر و فن اور شعری امتیازات پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ بابِ دوم ’مستند اہلِ قلم، معتبر رائیں‘ میں پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر شہزاد انجم اور ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی جیسے مستند اہلِ قلم نے اظہر عنایتی کی شاعری کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ مرتب نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ تکرار نہ ہو، اور اظہر عنایتی کی شاعری کے مختلف پہلو سامنے آجائیں۔
بابِ سوم ’اظہر عنایتی اپنوں کی نظر میں‘ میں جو مضامین شامل کئے گئے ہیں ان سے اظہر عنایتی کی شخصیت کے بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں۔ ان کی نصف بہتر محترمہ صوفیہ اظہر نے بہت خوبصورت اور دلچسپ انداز میں اظہر عنایتی کی شخصیت کے مختلف پہلووں سے روشناس کرایا ہے۔ مشہور سیاست داں اور اتر پردیش کے کابینہ وزیر محمد اعظم خاں بھی اظہر عنایتی کی شاعری کے دلدادہ ہیں۔ محمد اعظم خاں کا ایک مختصر مضمون بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ بابِ چہارم ’مشاہر کے تاثرات‘ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے مشاہر اردو زبان و ادب نے اظہر عنایتی کی شاعری اور انکے فکر و فن پر تاثرات ظاہر کئے ہیں۔ فہرست دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اظہر عنایتی کی شاعری کا جادو کیسے کیسے با کمالوں پہ چلا ہے۔ فیض احمد فیض، عنوان چشتی، حکم چندر نیر، مخمور سعیدی، محمود الٰہی، اکبر علی خاں عرشی زادہ، شارب ردولوی اور مظفر حنفی جیسے اکابرین نے بہت پہلے اظہر عنایتی کی شاعری کی انفرادیت کو پہچان لیا تھا۔ اور اسی لئے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ بابِ پنجم ’کچھ احباب کی آرا‘ ہے۔ بابِ ششم میں اظہر عنایتی کے چار اہم انٹرویوز ہیں۔ بہ زبانِ شاعر بھی جو باتیں سامنے آتی ہیں ان سے شاعر کی شخصیت اور شاعری کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ آخری باب میں خود اظہر عنایتی کا ایک بیحد مختصر مضمون ’میں اور میری آواز‘ ہے۔ محترمہ صوفیہ اظہر نے سوانحی اشارے ترتیب دیکر مستقبل میں تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے آسانی پیدا کر دی ہے۔ اس باب میں فاضل مرتب نے بیحد عمدہ انتخابِ کلام پیش کیا ہے۔ کلام کا انتخاب اس خوبی سے کیا گیا ہے کہ اظہر عنایتی کی شاعری کے تمام رنگ ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔
تنگ ہوتا ہے تو ہو جائے مراسم کا حصار
شاخِ گل ہم بھی نہیں ہیں کہ لچکتے جائیں
اور انکے یہ اشعار بھی اسی انتخاب میں ہیں،
بوڑھے سیاح بتا تونے تو دیکھی ہوگی
ایسی دنیا کہ جہاں پیار کیا جاتا ہے
خود کشی کے لئے تھوڑا سا یہ کافی ہے مگر
زندہ رہنے کو بہت زہر پیا جاتا ہے
یہ مصاحب ہیں انھیں اس کا ہنر آتا ہے
شہ کی باتوں میں رفو کیسے کیا جاتا ہے۔
یقینا اظہر عنایتی کے چاہنے والوں کے لئے یہ ایک انمول تحفہ ہے۔ اس خوبصورت پیش کش کے لئے ہمیں پروفیسر شہزاد انجم کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ کبھی اظہر عنایتی نے کہا تھا کہ
مری آواز کو محفوظ کر لو
کہ میرے بعد سناّٹا بہت ہے
اس آواز کو محفوظ کرنے کے بعد اب پروفیسر شہزاد انجم قارئین سے کہہ سکتے ہیں کہ
ہم نے روشن چراغ کر تو دیا
اب ہواؤں کی ذمہ داری ہے۔
(مبصر: ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو، نئی دہلی)