نیویارک،04جون(انڈیا نیرٹیو)
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردارکیا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں گزشتہ ماہ حماس اور اسرائیل کے درمیان مسلح تنازع کے بعد قریباً دو لاکھ فلسطینیوں کو مختلف النوع طبّی امداد کی ضرورت ہے۔ڈبلیو ایچ او کے مشرقی بحرمتوسط ریجن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عالمی ادارے نے ان فلسطینیوں کی طبی معاونت کے لیے اپنی کاوششیں تیز کردی ہیں۔بیان کے مطابق غزہ میں 77ہزار سے زیادہ افراد اپنے مکانات تباہ ہونے سے بے گھر ہوگئے ہیں۔اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں 30 مراکز صحت مکمل یاجزوی طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے عہدہ دار ریک پیپرکورن کا کہنا ہے کہ ”صورت حال بہت ناگفتہ بہ ہے،ڈبلیوایچ او کواس پر سخت تشویش لاحق ہے۔غزہ میں بلاتعطل ضروری امدادی اشیاءپہنچائی جانی چاہییں اور جس کسی مریض کو بھی غزہ سے باہر لے جانے کی ضرورت پڑے،اس کی اجازت دی جائے۔“انھوں نے کہا کہ ” فلسطینیوں کی زندگیاں زبوں حالی سے دوچار ہیں۔تنازع سے متاثرہ بہت سے افراد کو فوری امداد کی ضرورت ہے اور انھیں کووِڈ-19 سمیت صحت کے مختلف خطرات کا سامنا ہے۔“عالمی ادارہ صحت نے 31 مئی کو ایک بیان میں کہا تھا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کووِڈ-19 کے 337191 کیسوں کی تصدیق ہوچکی ہے۔ان میں سے 3765 مریض وفات پاچکے ہیں جب کہ حالیہ ہفتوں کے دوران میں غزہ میں کروناوائرس کے مثبت کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
ڈبلیو ایچ نے گزشتہ ماہ فلسطینی علاقوں میں اپنی طبّی سرگرمیوں کی معاونت کے لیے عالمی برادری سے 70 لاکھ ڈالر کی امداد کی اپیل کی تھی لیکن اس کا کہنا ہے کہ اس کو اب تک صرف 23 لاکھ ڈالرعطیات کی شکل میں موصول ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ اسرائیل کی غزہ کی پٹی پر مسلط کردی گیارہ روزہ جنگ میں 250 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوگئے تھے۔ان میں 66 کم سن فلسطینی بچّے شامل تھے۔ان کے علاوہ سیکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے۔غزہ سے حماس اور دوسری فلسطینی تنظیموں کے اسرائیلی علاقوں پر راکٹ حملوں میں ایک کم سن بچّے سمیت 12 اسرائیلی ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔اس وقت غزہ کے تباہ حال مکینوں کو تعمیرنوکا مشکل مرحلہ درپیش ہے۔
اسرائیل اور مصر نے 2007ئ میں حماس کے غزہ کی پٹی پر کنٹرول کے بعد سے اس علاقے کی مکمل ناکابندی کررکھی ہے۔اس کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی اس کھلی جیل کے مکین گوناگوں معاشی مشکلات سے دوچار ہوچکے ہیں۔
اب جنگ کی تباہ کاریوں نے ان کی مشکلات کو دوچند کردیا ہے۔اسرائیل غزہ کی برّی ، بحری اور فضائی ناکابندی کا یہ جواز پیش کرتا ہے کہ اس کی سلامتی اور حماس کو دوبارہ مسلح ہونے سے روکنے کے لیے یہ اقدام ناگزیرہے جبکہ فلسطینیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ اجتماعی سزا کی ایک شکل ہے۔اس کے ذریعے فلسطینیوں کو اجتماعی طورپر کم زور کیا جارہا ہے اور انھیں بنیادی ضروریات زندگی سے محروم رکھا جارہا ہے۔