Urdu News

خواجہ احمد عباس کا فلمی سفر: ’سات ہندوستانی‘سے ’حنا‘تک

خواجہ احمد عباس

 خواجہ احمد عباس کا فلمی سفر: ’سات ہندوستانی‘سے ’حنا‘تک 


خواجہ احمد عباس کو ان کے جنم دن (سات جون) پر انھیں یاد کرتے ہوئے ان کی فلمی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ”سات ہندوستانی“ جیسی تاریخی فلم بنا کر امیتابھ بچن کو سامنے لانے والے خواجہ احمد عباس نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کو کیا دیا ہے؟ 

خواجہ احمد عباس کی صحافتی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی ان کی فلمی زندگی کا بھی آغاز ہوگیا تھا۔ ”بمبئی کرانیکل“ میں انہوں نے کچھ عرصے تک فلم کرٹیک کی حیثیت سے کام کیا تھا لیکن خود خواجہ احمد عباس کا مانناہے کہ انہوں نے جب تھوڑے دنوں کے لئے ”ممبئی ٹاکیز“ میں پارٹ ٹائم پبلسٹی منیجر بننا منظور کیا تو یہ فلمی دنیا میں ان کا پہلا قدم تھا۔ اس حیثیت سے انہیں سیٹ پر جانے اور جرمن ڈائریکٹر کی تکنیک سمجھنے کا موقع ملتا تھا۔ اور اسی کے ساتھ ان کے دل میں ڈائریکٹر بننے کی خواہش بھی پلتی رہی۔ اس میدان میں قدم رکھنے کا مقصد پیسہ کمانا نہیں بلکہ وہ اپنے خیالات کی ترویج اور اپنی بات لوگوں تک پہنچانا چاہتے تھے۔ ان کی فلموں کا ایک سماجی مقصد ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنی فلموں میں زندگی کو اس کی حقیقی شکل میں پیش کیا۔ ان کی فلموں میں بھی حقیقت پسندی کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری میں ان کا نام اپنی ایک منفرد حیثیت رکھتاہے۔ باکس آفس پر فلاپ ہونے کے باوجود ان کی فلموں کو سراہا گیا اور ان کی بنائی گئی اکثر وبیشتر فلموں کو قومی اور بین الاقوامی انعامات سے نوازاگیا۔ خواجہ احمد عباس نے اپنی لکھی کہانیوں پر جو فلمیں بنائیں وہ فلاپ ہوئیں لیکن ان کی کہانیوں پر دوسرے ڈائریکٹروں کی بنائی کئی فلمیں ہمیشہ ہٹ ہوئیں۔
جب وہ ”بمبئی کرانیکل“میں بحیثیت فلم کرٹیک کام کررہے تھے۔ اس وقت انہوں نے بہت ساری فلم اسکرپٹس لکھیں لیکن انہیں پسند نہیں کیاجاتا تھا۔ پھر انہوں نے ”نیا سنسار“ نام کا اسکرپٹ لکھا۔ یہ کہانی ایک ایماندار جرنلسٹ کے بارے میں تھی۔ اس کہانی پر ۱۴۹۱ء میں فلم بنی اور بہت پسند کی گئی۔ اس طرح سے کہانیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ ”نئی دنیا“ (1942)، ”نئی کہانی“(1943)، ”نیاترانہ“ (۴۴۹۱ء) وغیرہ فلمیں ان کی کہانیوں پر بنیں۔ وی۔شانتارام نے 1945میں ان کی کہانی پر ”ڈاکٹرکوٹینس کی امر کہانی“ نام کی فلم بنائی جو ان کی انگریزی کہانی And one didn't comebackسے ماخوذ تھی۔ عباس نے1946 میں اپنی پہلی فلم ”دھرتی کے لال“IPTAکے لئے بنائی وہ اس وقت اپٹا کے جنرل سکریٹری تھے۔ ملک کی تقسیم سے پہلے1947میں انہوں نے چڑاپروڈکشن کے لئے ”آج اور کل“ نام کی فلم ڈائریکٹ کی لیکن بعد میں یہ فلم فسادات کی نذر ہوگئی۔ اس کے بعدان کی بہت سی کہانیوں پر فلم بنیں مثلاً ”پنا“، ”ایکٹریس“، ”آدھی رات“، ”ناز“ وغیرہ لیکن فلموں میں جس ڈھنگ سے کہانیوں کو پیش کیاجاتا تھا وہ اس سے مطمئن نہیں تھے اس لئے خود فلمیں ڈائریکٹ کرنا شروع کیں اور بعد میں جب پروڈیوسر کی دخل اندازی بھی ناگوار گزرنے لگی تو پروڈکشن بھی شروع کردیا اور1951 میں ”نیا سنسار“ کے نام سے اپنے ذاتی ادارے کی بنیاد ڈالی اور اپنی پہلی فلم ”انہونی“ بنائی۔

1951میں ہی راجکپور نے ان کی کہانی پر ”آوارہ“ نام کی فلم بنائی جس نے صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر کامیابی حاصل کی۔ 1952 میں عباس نے ”راہی“ او1954میں ”منا“ فلم بنائی۔ ”منا“ ایک تجرباتی فلم تھی یہ ہندوستان کی پہلی فلم تھی جس میں ایک بھی گانا نہیں تھا۔ اس کے بعد روس کے اشتراک سے انہوں نے ”پردیسی“ بنائی۔ 1959 میں ”چار دل چار راہیں“ شروع کیں اسی دوران ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا اور اداکاروں نے بھی انہیں بہت پریشان کیا۔ فلم فلاپ ہوگئی جس کی وجہ سے انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔1963میں ”شہر اور سپنا“ بنائی۔1964 میں جواہرلال نہرو کے اصرار پر قومی یکجہتی کے پیش نظر بچوں کے لئے ایک فلم ”ہماراگھر“ بنائی۔ 1966میں ”آسمان محل“ نام کی فلم نے ان کی دوسری فلموں کی بہ نسبت اچھا بزنس کیا۔ 1968میں ”بمبئی رات کی بانہوں میں“ بنائی اور1969میں ”سات ہندوستانی“ اس فلم میں انہوں نے پہلی بار امتیابھ بچن کو متعارف کیاجو آگے چل کر ہندوستانی فلم انڈسٹری کا سپر اسٹار بنا۔1971 میں ”دوبوند پانی“ او1985 میں نکسلائٹ بنائی اور اپنے انتقال سے چند دنوں قبل ”ایک آدمی“ نام کی فلم مکمل کرلی۔
ان کے علاوہ انہوں نے دوسرے پروڈیوسروں، ڈائریکٹروں کے لئے بھی فلمیں لکھیں جو کافی ہٹ ہوئیں۔ ان میں بیشتر راج کپور کے لئے لکھیں۔ مثلاً ”آوارہ“، ”شری420“، ”میرا نام جوکر“، ”بابی“، ”رام تیری گنگا میلی“، ”حنا“ وغیرہ۔
خواجہ احمدعباس نے ہندوستان میں سنجیدہ، باشعور اور فن کارانہ فلموں کی راہ ہندوستانی فلمی دنیا کو دکھائی۔ انہوں نے اپنی تمام فلموں میں کسی نہ کسی اہم سماجی اور قومی مسئلے کی طرف اشارہ کیاہے اور ان مقاصدکی خاطر وہ اپنے مفاد بھی بھول جاتے تھے۔ خواجہ احمد عباس فلمی دنیا کے مشہور اور اہم اداروں سے بھی وابستہ رہے۔ وہ انڈین موشن پکچرز، پروڈیوسرز ایسوسی ایشن اور فلم ڈائریکٹر ایسوسی ایشن، فلم رائٹرز ایسوسی ایشن، ڈاکٹومنٹری پروڈیوسرزایسوسی ایشن کے مستقل ممبر تھے۔ فلم انسٹی ٹیوٹ آف پونا میں وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے۔
خواجہ احمد عباس نے ”زبیدہ“، ”یہ امرت ہے“، ”میں کون ہوں“، ”انناس اور ایٹم بم“ اور ”لال گلاب کی واپسی“ نام کے ڈرامے بھی لکھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے دنیا کے بیشتر ملکوں کی سیر کی۔ 1938ء اور1966 میں انہوں نے ساری دنیا کی سیر کی۔1951 میں چین کا سفر کیا۔ 1954میں پہلا ہندوستانی فلم ڈیلی گیشن لے کر روس گئے جہاں انہوں نے ہندوستان اور روس کے تعلقات اچھے بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے بہت سے دوست بنائے۔ ان میں مشہور سیاست دان آندرے گرومیکو اور پہلے خلابازیوری گاگرن کے نام قابل ذکر ہیں۔ بعد میں انہوں نے یوری گاگرن کی سوانح حیات بھی لکھی۔ انہوں نے ”مسافر کی ڈائری“ نام کا سیاحت نامہ لکھا۔ ”مسولینی“، ”محمد علی“ اور”خروشچیف کیاچاہتاہے“ نام کی سوانح عمریاں تحریر کیں۔ انہوں نے خود نوشت سوانحI am not an Islandلکھی جس میں انہوں نے اپنی زندگی کو کھول کر رکھ دیا۔
خواجہ احمد عباس کو بہت سارے قومی اور بین الاقوامی انعامات سے بھی نوازا گیا جو مندرجہ ذیل ہیں:
  1969ء میں پدم شری
 1969 میں ہریانہ سرکار کی جانب سے ادبی خدمات کے صلے میں اعزاز
  1981میں یوپی فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن کا ایوارڈ
1983 میں سوویت یونین کاوورووسکی(Vorousky) ادبی اعزاز
 1984میں مودی غالب ایوارڈ
 1984میں اردو اکادمی دہلی کا خصوصی ایوارڈ
 1985میں ہندسوویت دوستی اور امن عالم کے لئے سوویت ایوارڈ
  مہاراشٹراردو اکادمی کی جانب سے اردو ادب وصحافت کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ


 
 
 
 


Recommended