بہشتی،سقہ،ہمارے قدیم سماج کا وہ پیشہ ور طبقہ ہے،اور تھا،جسکی رسایء عوام و خواص کے گھروں کے اندر تک تھی۔یعنی،خادم،خادماوں،خواجہ سرا،کنیز،مجرا گزار،زنانے، حلال خورکے علاوہ بھشتی ہی تھے جو چہرہ لال کپڑے سے لپیٹ کر گھر میں داخل ہوتے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب سرکاری پانی کی فراہمی کا کویء تصور نہیں تھا،برما،/ہینڈ پمپ بھی بعد کے دور کی ایجاد ہے۔
شاہی دور میں پن چکیوں سے بیک وقت دو کام ہوتے تھے،کنووں سے پانی کھینچنا اور گیہوں وغیرہ کی پسایء،۔۔کھیتوں اور بیشتر علاقوں میں رہٹ بھی مستعمل تھے،یہ عموماً کھیت کھلیانوں میں زیادہ تھے۔بہر حال دلی میں قلعہ معلیٰ کے سامنے ایک مقام پتھر والا،کہلاتا ہے،اب وہاں سنیما گھرہے،مورخین نے لکھا ہے کہ یہاں نہایت میٹھے پانی کے کنویں تھے اور پن چکی کے ذریعہ پانی قلعہ میں جاتا تھا،اور دلی کے نوابین،رووسا،امراء،عوام یہاں کا پانی بہشتیوں سے منگواتے تھے،انہی پن چکیوں سے گیہوں وغیرہ پستا تھا،ایسٹ انڈیا کی آمد سے ہمارے ملک میں انڈسٹری اور ٹیکنولوجی کو فروغ ہوا، پانی ،اور بجلی کی سپلائی کا نظام تشکیل دیا گیا،بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں یہ شروع ہوچکا تھا،پر پانی کی سپلائی کا نظام پورے شاہجہاں آباد میں نہ ہونے کے سبب بہشتیوں پر انحصار تھا،یہ ہمارے قدیم معاشی نظام سے پیدا شدہ طبقہ تھا،لیکن اس طبقہ کا رتبہ کمتر تھا، شاہی عہد کی طبقاتی تقسیم میں محنت کشوں کا رتبہ کمتر تھا کہ انکا فرض انتھک خدمت کرنا ہی تھا۔چنانچہ جملہ پیشہ وروں کی مانند انکے محلے،اور رہایشی علاقہ ہر حصہ میں محفوظ تھے۔ہم اب بھی دیکھتے ہیں کہ دلی کے مختلف علاقوں میں گلی سقوں والی،کے بورڈ آویزاں ہیں۔سوییءوالان میں یہ گلی معروف ہے۔
پہلی عالمگیر جنگ کے دوران پانی کی سرکاری سپلائی عام ہوچکی تھی اور بہشتیوں کا بڑا طبقہ بیروز گاری کا شکار تھا،کہ جنگ کے دوران فوج کے زیر استعمال رد یا شکستہ سامان ٹھکانے لگانا کار دارد تھا،چنانچہ اس طبقہ نے اس سامان کو کوڑیوں کے مول خرید تانبا،پیتل ،لوہا،نکال کر فروخت کیا،کل ،پذزے کی سمجھ ہویء تو مشینی پرزوں کی فروخت کا راستہ بھی نکلا،اس طرح بہشتی طبقہ کی ذریعہ معاش بدلا،جسے نیء اصطلاح میں transformation،کہا جا سکتا ہے،پیشہ بدلا،تو عرف عام میں یہ کباڑی کہلاےء،دلی کی جامع مسجد،آزآد مارکیٹ،اوررانی جھانسی روڈ کے قریب اس طبقہ کی اجارہ داری ہے،دلی کے کیء علاقوں میں مرمت شدہ کل پرزے تیار کرنے والے ان پیشہ وروں کی صاحب حیثیت طبقہ کی مانند ساکھ ہے۔یہ ایک منفرد برادری کی شناخت کے حامل ہیں۔
بہشتیوں کا چھوٹا سا طبقہ بعد کے زمانے میں بھی جامع مسجد کے شاہی دروازے کی سیڑھیوں پر داستانیں اور شیخ چلیوں،اور شعری محفلوں میں مشقوں سے پانی بلاکر ثواب کماتے اور پیاسے حسب حیثیت بہشتیوں کو نذر گزارتے۔ پھر جامع مسجد کے شمالی دروازے کے تراہے پر کٹورے بچاکر پانی پلاتے تھے،ان میں کچھ حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کے آستانے پر مشک لیےء آواز لگاکر پانی کا چھڑکاؤ کرتےہیں،اور عقیدتمند انکو ہدیہ نذر کرتے ہیں،یہی انکا ذریعہ معاش ٹھہرا،یہ تہذیبی اقدار اب معدوم سی ہیں۔ایک اور طبقہ جامع مسجد کے ارد گرد مجلسوں میں نظر آتا تھا جسے ساقی کہتے تھے۔یہ لال پگڑی،چوڑی دار پاجامہ اور واسکٹ پہنے،ہاتھوں حقہ لیےء گھومتے،شوقین ان کے حقہ سے دو چار کش لیتے،اور پیسے نذر کرتے،یہ طبقہ اب معدوم ہو چکا۔
بہشتیوں نے عالمگیر جنگ سے اپنی برادری کی معاشی ترقی کی راہ نکالی۔اب یہ طبقہ ہر علاقے کا متمول طبقہ ہے۔
اس تحریر کا مقصد کسی کی توہین نہیں،سماجی تبدیلی،معاشی نظام کی مرہون منت ہے،یہی مقصود ہے اور دلی کے بہت سے پیشوں کی مانند یہ پیشہ ور طبقہ بھی اب تہذیبی تاریخ کے جھروکوں کا ایک منظر ہے۔
ڈاکٹر عبدالعزیز نے بچپن سے پرانی دھلی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے. وہ ایک نایاب اسکالر ہیں. ذاکر حسین دھلی کالج میں اردو کے پروفیسر رہے ہیں. خوبصورت زبان میں دھلی کے ایک خاص برادری کا نقشہ
کھینچ کے رکھ دیا ہے. ڈاکٹر عبدالعزیز نے بچپن سے پرانی دھلی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے. وہ ایک نایاب اسکالر ہیں. ذاکر حسین دھلی کالج میں اردو کے پروفیسر رہے ہیں. خوبصورت زبان میں دھلی کے ایک خاص برادری کا نقشہ کھینچ کے رکھ دیا ہے.