کلبھوشن جادھوکو پاکستان میں سزا کے خلاف اپیل کی اجازت
نئی دہلی ، 11 جون (انڈیا نیرٹیو)
پاکستان کو کلبھوشن جادھوکے معاملہ میں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ، پاکستان نے بین الاقوامی عدالت انصاف (جائزہ اور نظرثانی) آرڈیننس 2020 کو منظوری دے دی ہے۔ اس کے بعد ، کلبھوشن جادھو کو پاکستان کی طرف سے دی جانے والی سزا کے خلاف کسی بھی ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کی اجازت ہوگی۔
پاکستان کی قومی اسمبلی نے جمعرات کے روز بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے کے سلسلے میں پاکستانی جیل میں بند ہندوستانی شہری کلبھوشن جادھو کواپیل کا حق دینے کا بل منظور کیا۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں اسمبلی کو موثر جائزہ لینے اور دوبارہ غور کرنے کی ہدایت دی تھی۔
کلبھوشن جادھو2016 سے پاکستان کی جیل میں بند ہیں۔ ہندوستانی حکومت شروع ہی سے یہ کہتی رہی ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی نے کلبھوشن جادھو کو ایران سے اغوا کیا تھا۔ کلدیپ جادھو بحریہ کے سابق افسر تھے۔ وہ کاروباری معاہدے کے لیے ایران گئے تھے۔یہاں سے انہیں اغوا کیا گیا اور پھر انہیں پاک فوج کے حوالے کردیا گیا۔
اسلام آباد ہمیشہ سے ہی جادھو پر یہ الزام لگا رہا ہے کہ کلبھوشن ایک ہندوستانی جاسوس ہیں اور انہوں نے پاکستان میں متعدد دہشت گرد حملے بھی کیے ہیں۔ پاکستان میں ایک فوجی عدالت نے جادھو کو سزائے موت سنائی ہے۔ اس کے بعد حکومت ہند بین الاقوامی عدالت انصاف میں گئی۔
کلبھوشن کے بارے میں کچھ پرانی تفصیلات
واضح ہو کہ پاکستان کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل احمد عرفان نے کہاہے کہ پاکستان میں زیر حراست مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو نے اپنی سزا کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کے بجائے وہ اپنی رحم کی اپیل کے پیروی جاری رکھیں گے۔پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے کلبھوشن جادھو کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنا رکھی ہے۔
17 جولائی 2019 کو عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ مبینہ جاسوس کی سزائے موت پر نظر ثانی کرے اور انھیں قونصلر رسائی دے۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ پاکستان نے کلبھوشن جادھو کو قونصلر تک رسائی نہ دے کر ویانا کنونشن کی شق 36 کی خلاف ورزی کی ہے۔
بدھ کو دارالحکومت اسلام آباد میں دفتر خارجہ میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’پاکستان نے کمانڈر جادھو کو والد سے ملاقات کروانے کی پیشکش کی ہے۔ انڈین حکومت کو مراسلہ بھجوا دیا گیا جبکہ کمانڈر جادھو کو دوبارہ قونصلر رسائی کی پیشکش پر انڈین حکومت کے جواب کا انتظار ہے۔‘احمد عرفان نے کہا کہ پاکستان اس سے پہلے بھی کلبھوشن جادھو کی اہلخانہ سے ملاقات کروا چکا ہے اور پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے تیار ہے۔
کلبھوشن جادھو کے پاس نظر ثانی کی اپیل کے لیے کتنا وقت ہے؟
احمد عرفان نے مزید کہا کہ پاکستان نے بارہا انڈین ہائی کمیشن کو اپیل دائر کرنے کا کہا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حالانکہ پاکستان کا قانون نظرِ ثانی کا حق فراہم کرتا ہے لیکن عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر صحیح طور سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان نے 28 مئی کو ’انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسیڈریشن آرڈینسس 2020‘ نافذ کیا۔
اس آرٹیننس کے تحت 60 روز میں ایک درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کی اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عالمی عدالت انصاف کے 20 مئی کے فیصلے کے بعد نظرثانی درخواست کے لیے 60 روز کا وقت ہے جس کے دوران درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی جاسکتی ہے، یہ اپیل کمانڈر جادھو خود، ان کا قانونی نمائندہ یا انڈین ہائئ کمیشن دائر کر سکتے ہیں۔‘انھوں نے بتایا کے 17 جون کو کلبھوشن جادھو کو اپیل کے لیے بلایا گیا۔ لیکن انھوں نے یہ اپیل دائر کرنے سے انکار کر دیا۔
عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں جو کیس پاکستان نے جیتا تھا اس کے فیصلے کے اہم نکات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ویانا کنونشن برائے قونصلر روابط کی دفعہ 36 کے تحت کلبھوشن یادیو کو ان کے حقوق کے بارے میں بتایا جائے۔
انھوں نے بتایا کہ فیصلے میں یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ بھارتی قونصل کے افسران کو کلبھوشن جادھو سے بات چیت کرنے کی اجازت اور قونصلر رسائی دی جائے تا کہ وہ ان سے ملاقات کریں اور ان کے لیے قانونی نمائندگی کا بندوبست کریں۔
اس کے علاوہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن کیس پر مؤثر نظر ثانی کے لیے تمام تر اقدامات اٹھائے جائیں جس میں اگر ضرورت پڑے تو قانون سازی کا نفاذ بھی شامل ہے اور جب تک مؤثر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور مکمل نہ ہوجائے اس وقت تک پھانسی کی سزا کو روک دیا جائے۔انہوں نے بتایا کہ مزید یہ کہ ’پاکستان نے را کے ایجنٹ کمانڈر جادھو کی سزائے موت کو سزا پر نظرِ ثانی اور دوبارہ غور تک کے لیے روک دیا۔`اس کے علاوہ نظرِ ثانی اور دوبارہ غور کے لیے پاکستان اپنے موجودہ قوانین کا جائزہ لیا تا کہ ویانا کنوینشن کے آرٹیکل 36 کے تحت مناسب طریقے سے نظرِ ثانی اور غور کیا جاسکے۔
پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے اپریل 2017 میں کلبھوشن جادھو کو جاسوسی، تخریب کاری اور دہشت گردی کے الزامات میں موت کی سزا سنائی تھی۔اس فیصلے کے خلاف انڈیا نے مئی 2017 میں عالمی عدالت انصاف کا دورازہ کھٹکھٹایا تھا اور استدعا کی تھی کہ کلبھوشن کی سزا معطل کرکے ان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔
عالمی عدالت نے انڈیا کی یہ اپیل مسترد کر دی تھی تاہم پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ ملزم کو قونصلر تک رسائی دے اور ان کی سزایے موت پر نظرِ ثانی کرے۔کلبھوشن جادھو کے بارے میں پاکستان کا دعوی ہے کہ وہ انڈین بحریہ کے حاضر سروس آفسر ہیں جنھیں سنہ 2016 میں پاکستان کے صوبے بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔پاکستان ایک عرصے سے بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند عناصر کی پشت پناہی کرنے کا الزام انڈیا پر عائد کرتا رہا ہے۔