<div class="addthis_inline_share_toolbox_d2se" data-url="http://www.uniurdu.com/news/regional/story/2209500.html" data-title="سری نگر: پولیس نے سیلف ہیلپ گروپ انجینئروں کا سکریٹریٹ گھیراؤ ناکام بنا دیا" data-description="سری نگر، 7 ستمبر (یو این آئی) جموں و کشمیر پولیس نے پیر کے روز سیلف ہیلپ گروپ آف انجینئرس ایسوسی ایشن کے سکریٹریٹ کے گھیراؤ کی کوششوں کو ناکام بنا کر درجنوں انجینئروں کو حراست میں لے لیا۔">
<div id="atstbx" class="at-resp-share-element at-style-responsive addthis-smartlayers addthis-animated at4-show" role="region" aria-labelledby="at-25224cf4-502a-4d09-800b-8febcc8477a1"><span id="at-25224cf4-502a-4d09-800b-8febcc8477a1" class="at4-visually-hidden"></span>
<div class="at-share-btn-elements">by</div>
</div>
</div>
<h1 class="storyheadline">دیوریا:ضمنی انتخاب میں 4برہمن امیدواروں نے مقابلے کو بنایا دلچسپ</h1>
<div></div>
<span class="storydetails"> اترپردیش کے دیوریا صدر اسمبلی حلقے پر ہورہے ضمنی الیکشن میں 4برہمن امیدواروں کے انتخابی میدان میں ہونے سے یہاں کا الیکشن کافی دلچسپ ہوگیا ہے۔
دیوریا صدر سیٹ سے بی جے پی رکن اسمبلی جنمے سنگھ کے انتقال کے بعد سیٹ خالی ہونے سے ہورہے ضمنی الیکشن میں کانگریس نے مکندبھاسکر منی، بی جے پی نے ڈاکٹر ستیہ پرکاش منی، سماج وادی پارٹی(ایس پی) نے برہا شنکر تیواری اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) نے ابھے ناتھ ترپاٹھی کو انتخابی میدان میں اتارکر اپنے اپنے روایتی ووٹوں کے ساتھ برہمن ووٹوں کو اپنے حق میں کرنے کے لئے انتخاب کو کافی دلچسپ بنا دیا ہے۔
دیوریا صدر اسمبلی حلقے میں کل رائے دہندگان کی تعداد 3لاکھ 34ہزار 177 ہے جس میں برہمن ووٹرتقریبا 30فیصدی ہیں ۔</span>دیوریا مشرقی اتر پردیش کا ایک اہم ضلع ہے۔ دیوریا کسی زمانے میں گورکھپور ضلع کا حصہ ہوا کرتا تھا لیکن اب خود دیوریا ضلع کے بھی دو حصے ہو چکے ہیں۔ کشی نگر نام کا ایک نیا ضلع بن چکا ہے جس کا ہیڈ کوارٹر پڈرونا ہے۔ ابھی دیوریا میں ضمنی انتخاب ہو رہے۔ لطف یہ ہوا کہ سبھی اہم پارٹیوں نے ایک ہی ذات یعنی برہمن کو ٹکٹ دے دیا۔ وہ بھی سب کے سب منی ترپاٹھی۔ اب لوگوں میں تجسس ہے۔ کشی نگر سے کئی بار ممبر اسمبلی رہے برمہا شنکر ترپاٹھی کو سماج وادی پارٹی نے امیدوار بنایا ہے۔ برہما شنکر ترپاٹھی یوں تو اپنے علاقے میں یعنی کشی نگر میں کافی مضبوط امیدوار رہے ہیں لیکن دیوریا کی زمین ان کے لئے ذرا نئی تو ہے۔ اسی طرح بھاجپا، کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی نے بھی برہمن امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ چار اہم پارٹیوں سے چار برہمن امیدواروں کے میدان میں اترنے سے مقابلہ دلچسپ ہو گیا ہے۔
دیوریا کی قسمت میں باہری امیدواروں کی کامیابی بھی لکھی ہوئی ہے۔ جہاں تک دیوریا لوک سبھا سیٹ کا تعلق ہے تو اس سیٹ پر کبھی سماج وادی پارٹی کے موہن سنگھ کا قبضہ تھا۔ گزشتہ تیس برسوں میں موہن سنگھ سے زیادہ مقبول لیڈر دیوریا کی دھرتی پر کوئی دوسرا نہیں ہوا ہے۔ شری پرکاش منی ترپاٹھی اور شری نواس منی ترپاٹھی جیسے لوگ بھی باری باری سے ایم پی اور ایم ایل اے بنتے رہے ہیں لیکن ان کی وہ مقبولیت نہیں رہی ہے جو موہن سنگھ کی تھی۔ حالانکہ گزشتہ الکشن میں ایک باہری امیدوار کلراج مشرا کو بھاجپا نے ٹکٹ دیا اور مودی لہر میں وہ لوک سبھا سیٹ جیت کر پارلیامنٹ میں پہنچے۔ اس بار بھی جو صاحب دیوریا کو لوک سبھا میں نمائندگی کر رہے ہیں وہ باہری ہی ہیں۔ لیکن دیوریا اسمبلی سیٹ پر ابھی جو ضمنی انتخاب ہو رہا اس میں کسی بھی برہمن کی ہی جیت ہوگی یہ تو طے ہے لیکن وہ برہمن اپنا ہاتھ کا پنجا دکھا کر شکریہ ادا کریگا یا ہاتھی پر سوار ہو کر لکھنؤ چلا جائے گا یا پھر سائکل کی سواری کر کے اسمبلی میں پہنچے گا یا کمل کا پھول ہاتھوں میں لے کر لوگوں کو دھنیہ واد کہے گا؟ اب بس کچھ ہی دن کے انتظار کے بعد نتایج سامنے آ جائیں گے۔.