آبدوزوں میں 95 فیصد’میڈ اِن انڈیا‘سازوسامان نصب کیا جائے گا
بحریہ کو پہلی جوہری آبدوز 2032 کے آس پاس ملے گی
بحر ہند میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوستان اب خود ہی چھ جوہری آبدوزتیار کرے گا ، جس کے لیے سلامتی امورکی کابینہ کمیٹی (سی سی ایس) سے منظوری کا انتظار ہے۔ بھارت کے پاس صرف ایک ایٹمی آبدوز ہے ، لہٰذا خودساختہ منصوبے کے تحت پہلی تین آبدوزکو جلد ہی منظور ی ملنے کا امکان ہے۔ اس کے بعد مزید تین آبدوزوں کے لیے منظوری دی جائے گی۔ بحریہ کو پہلی جوہری آبدوز 2032 میں یا اس کے آس پاس ملے گی۔
بحریہ کے پاس اس وقت واحد طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرمادتیہ ہے ، جسے 16 نومبر 2013 کو شروع کیا گیا تھا۔ بحریہ کا دوسرا طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرانت اس وقت ٹرائل کے دورسے گزر رہاہے۔ توقع ہے کہ یہ 2021 کے آخر یا 2022 کے اوائل میں بحریہ کے کنبے کا حصہ بن جائے گا۔
بحر ہند میں چین کی بڑھتی مداخلت کے پیش نظر ہندوستانی بحریہ کو تیسرے طیارہ بردار بحری جہاز کی ضرورت ہے ، جس پر اعلی سطح پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ محدود بجٹ کو دیکھتے ہوئے ، بحریہ کو چھ جوہری آبدوزوں یا تیسرے طیارہ بردار بحری جنگی جہاز کے درمیان اپنی ضرورت کے مطابق انتخاب کرنا تھا ، جس میں چھ جوہری آبدوزوں کے دیسی ساختہ منصوبے پر توجہمرکوز کی گئی ہے۔
اب تک بحریہ کے پاس صرف دو ایٹمی آبدوزیں آئی این ایس اریہنت اور آئی این ایس چکر تھیں۔ آئی این ایس چکر روس سے 10 سالہ لیز پر لی گئی تھی۔ اس سب میرین کی دس سال کی لیز جنوری 2022میں ختم ہونی تھی لیکن بھارت نے لیز کی میعاد میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسے تقریباً دس ماہ قبل روس کو واپس کردیا ہے۔ 2019 میں بھارت نے روس سے اکولا کلاس کی تیسری جوہری طاقت سے لیس سب میرین آئی این ایس چکر۔ تین کو لیز پر دینے کے لئے 3 3.3 بلین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ روس کو 2025 میں 10 سال کے لئے دوسری جوہری طاقت سے لیس آبدوز حاصل ہوگی۔
اب بحریہ کے پاس دیسی ساختہ واحدجوہری آبدوز اریہنت باقی ہے۔ ارینت کو اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور ان کی اہلیہ گرشرن کور نے 26 جولائی ، 2009 کو لانچ کیا تھا۔ اس دن کو اس لئے بھی منتخب کیا گیا تھا کہ اس دن کو کارگل وجے دیوس یا وجے دیواس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ گہری بندرگاہ اور سمندری آزمائشوں کے بعد اگست 2016 میں اریہنت سب میرین کو ہندوستانی بحریہ میں شامل کیا گیا تھا۔ اسی زمرے کی دوسری جوہری سب میرین آئی این ایس اریگھاٹ بھی سمندری ٹرائل سے گزر رہی ہے اور امید ہے کہ مستقبل قریب میں اس کو آپریشنل کر دیا جائے گا۔
چین کے پاس اس طرح کی ایک درجن کے قریب جوہری آبدوزیں ہیں۔ اس کی نئی آبدوزٹائپ۔ 095 بہتپرسکون طریقہ سے سمندر میں چلتی ہے۔ لہذا ، چین کی سازشوں کا جواب دینے کے لئے ہندوستانی بحریہ کو بھی ایٹمی آبدوزوں کی ضرورت ہے۔ بھارتنے 6000 ٹن سے زیادہ وزنی چھ جوہری آبدوزیں بنانے کا منصوبہ بنایاہے۔ ابتدائی طور پر ، کابینہ کی کمیٹی برائے سیکورٹی (سی سی ایس) صرف تین آبدوزوں کی تعمیر کی منظوری دے گی ، جن میں سے پہلی جوہری آبدوز بحریہ کو 2032 میں یا اس کے آس پاس دستیاب ہوگی۔ ہندوستانی بحریہ کے لئے چھ دیسی جوہری حملے والی آبدوزوں کو بنانے کی تجویز کو نریندر مودی حکومت نے 2014 میں اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ہی منظور کرلیا تھا۔
ہندوستان کی کابینہ کمیٹی برائے سیکورٹی (سی سی ایس) 06 جوہری حملہ آور آبدوزوں (ایس ایس این) میں سے تین کی دیسی ساختہ تعمیر کے لیے تقریباً6.8 بلین ڈالر کی تجویز پر غور کر رہی ہے۔ یہ پروجیکٹ (ایس ایس بی این) اریہنت قسم کے پروجیکٹ سے مختلف ہے۔ دیسی ساخت سے بننے والی پہلی تین ایٹمی حملے کی سب میرینوں میں 95 فیصد ’ہندوستان میں بنے ہوئے‘سازوسامان سے لیس ہوگی۔ یہ وشاکھاپٹنم میں ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) تیار کرے گا۔ ہر سب میرین کی تعمیر پر 15000 کروڑ روپئے لاگت آئے گی۔ اس منصوبے سے ہندوستان میں آبدوزوں کی تیاری کی صلاحیت کو بڑھانے میں نجی اور سرکاری، دونوں شعبوں سمیت ملکی دفاعی شعبے کو بڑا فروغ ملے گا۔ توقع ہے کہ اس منصوبے سے دفاعی شعبے میں بڑی تعداد میں ملازمتیں پیدا ہوں گی۔