Urdu News

کیا پاک بھارت فوج کو کابل جانا چاہیے؟

کیا پاک بھارت فوج کو کابل جانا چاہیے؟

ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک

اس ہفتے افغانستان – بحران پر غور کرنے کے لیے دو بڑے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ایک تو افغان صدر اشرف غنی امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے لئے واشنگٹن جارہے ہیں اور دوسرا ، تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال اپنے پاکستانی ہم منصب معید یوسف سے ملاقات کریں گے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس دوشنبہ میں ہو رہا ہے۔

ان دونوں ملاقاتوں کی اہمیت افغانستان کی سلامتی کے لئے نہیں ، بلکہ جنوبی ایشیاکے امن اور تعاون کے لئے بھی ہے۔ امریکی افواج ستمبر میں افغانستان سے انخلا کریں گی۔ اس خبر کے بعد سے ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔ لوگوں میں بے چینی پھیل رہی ہے۔ کابل ، قندھار اور ہرات سے بہت سارے افغان دوست مجھ سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہمیں کنبہ کے ساتھ رہنے کے لیے ہندوستان آنا چاہیے؟ انہیں خوف ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی ، کابل طالبان کے قبضے میں آجائے گا اور وہاں ان کی زندگی حرام ہوجائے گی۔

ابھی ابھی طالبان نے اب 40 نئے اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔ انہوں نے افغانستان کے نصف حصے پر غلبہ حاصل کرلیاہے۔ وہ زیادہ تر گل زئی پٹھان ہیں۔ افغانستان کے تاجک ، ازبک ، ہزارہ ، شیعہ اور مو ئے سرخ پریشان ہیں۔

 ان میں سے بیشتر غریب اور محنت کش لوگ ہیں۔ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ بیرون ملک جاکر آباد ہوجائیں۔ افغان فوج میں بھی خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ جو بھی کابل میں پکڑا جاتا ہے ، فوج کو اپنا رنگ بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ایسی صورتحال میں ، سابق صدر حامد کرزئی ، جنہوں نے 13 سال تک کابل سے حکمرانی کی ، افغانستان کے موجودہ حالات کا سارا الزام امریکہ پرعائد کر رہے ہیں ، جبکہ موجودہ صدر غنی امریکی فوج کی واپسی روکنے کے لئے واشنگٹن گئے ہیں۔

اگر دوشنبہ میں پاک بھارت عہدیدار ملتے ہیں ، تو یہ ان کی گفتگو کا سب سے بڑا مسئلہ ہوگا۔ پاکستان اب بھی طالبان کا ساتھ دے رہا ہے۔ وہ افغانستان میں انتشار کے لئے 'اسلامک اسٹیٹ' کے دہشت گردوں کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے۔ اس نے امریکہ کو اپنے یہاں ایسے فوجی اڈے بنانے سے انکار کردیا ہے ، جو افغانستان میں طالبان کے حملے کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔

پاکستان بڑی پریشانی کا شکار ہے۔ اس کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان میں بھارت کے کردار کو "ضرورت سے زیادہ" قرار دیا ہے۔ اگر واقعتا ایسا ہے تو ، میں پاکستان کے رہنماوں سے کہتا ہوں کہ ہمت کریں اور مشترکہ طور پر پاکستان اور ہندوستان کی فوج افغانستان کو بھیجیں۔ اگر پاکستان واقعتا دہشت گردی کی مخالفت کرتا ہے تو اس سے بہتر اقدام اور کیا ہوسکتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کو مل کر وہاں عام انتخابات منعقد کروانا چاہئے۔ جسے بھی افغان عوام پسند کرے – طالبان کو، مجاہدین کو، خلق پرچم یا غنی ، عبد اللہ یا کرزئی کو- وہ منتخب کر سکتے ہیں۔ اگر پاک بھارت تعاون افغانستان میں کامیاب رہا تو مسئلہ کشمیر ایک چٹکی میں حل ہوجائے گا۔

(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)

Recommended