آج ہم سب کی قابل احترام اور محبت کی مورتی لتا دیدی کا یوم پیدائش ہے۔ آج اتفاق سے نوراتری کا تیسرا دن، ماں چندر گھنٹا کی سادھنا کا تہوار بھی ہے۔ کہتے ہیں کہ کوئی سادھک- سادھیکا جب سخت ریاضت کرتا ہے، تو ماں چندر گھنٹا کی کرپا سے اسے غیبی آوازوں کا احساس ہوتا ہے۔ لتا جی، ماں سرسوتی کی ایک ایسی ہی سادھیکا تھیں، جنہوں نے پوری دنیا کو اپنی غیبی آوازوں سے مسحور کر دیا۔ سادھنا (ریاضت) لتا جی نے کی، وردان ہم سب کو ملا۔ ایودھیا میں لتا منگیشکر چوک پر نصب کی گئی ماں سرسوتی کی یہ عظیم الشان وینا، موسیقی کی اُس ریاضت کی علامت بنے گی۔ ایودھیا میں لتا منگیشکر
مجھے بتایا گیا ہے کہ چوک کے احاطہ میں سروور کے بہتے ہوئے پانی میں سنگ مرمر سے بنے 92 سفید کمل، لتا جی کی مدت حیات کی عکاسی کر رہے ہیں۔ میں اس شاندار کوشش کے لیے یوگی جی کی حکومت کا، ایودھیان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا اور ایودھیا کے عوام کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس موقع پر میں تمام ہم وطنوں کی طرف سے بھارت رتن لتا جی کو خراب عقیدت پیش کرتا ہوں۔ میں پربھو شری رام سے کامنا کرتا ہوں، ان کی زندگی کا جو فائدہ ہمیں ملا، وہی فائدہ ان کے سُروں کے ذریعے آنے والی نسلوں کو بھی ملتا رہا۔
لتا دیدی کے ساتھ جڑی ہوئی میری کتنی ہی یادیں ہیں، کتنے ہی جذباتی اور محبت بھرے لمحے ہیں۔ جب بھی میری ان سے بات ہوتی، ان کی آواز کی جانی پہچانی مٹھاس ہر بار مجھے مسحور کر دیتی تھی۔ دیدی اکثر مجھ سے کہتی تھیں- ’انسان عمر سے نہیں کارنامے سے بڑا ہوتا ہے، اور جو ملک کے لیے جتنا زیادہ کرے، وہ اتنا ہی بڑا ہے‘۔ میں مانتا ہوں کہ ایودھیا کا یہ لتا منگیشکر چوک، اور ان سے جڑی ایسی تمام یادگاریں ہمیں ملک کے تئیں اپنے فرائض کا بھی احساس کروائیں گی۔
مجھے یاد ہے، جب ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے بھومی پوجن ختم ہوا تھا، تو میرے پاس لتا دیدی کا فون آیا تھا۔ وہ بہت جذباتی تھیں، بہت خوش تھیں، بہت مسرت سے بھر گئی تھیں اور بہت آشیرواد دے رہی تھیں۔ انہیں یقین نہیں ہو رہا تھا کہ آخرکار رام مندر کی تعمیر شروع ہو رہی ہے۔ آج مجھے لتا دیدی کا گایا وہ بھجن بھی یاد آ رہا ہے – ’’من کی ایودھیا تب تک سونی، جب تک رام نہ آئے‘‘ ایودھیان کے شاندار مندر میں شری رام آنے والے ہیں۔ اور اس سے پہلے کروڑوں لوگوں میں رام نام کی عظمت بیان کرنے والی لتا دیدی کا نام، ایودھیا شہر کے ساتھ ہمیشہ کے لیے قائم ہو گیا ہے۔
پربھو رام تو ہماری تہذیب کے ’پرتیک پروش‘ ہیں۔ رام ہماری اخلاقیات کے، ہماری قدروں، ہمارے وقار، ہمارے فرائض کے جیتے جاگتے رہنما ہیں۔ ایودھیا سے لے کر رامیشورم تک، رام بھارت کے ذرے ذرے میں سمائے ہوئے ہیں۔ بھگوان رام کے آشیرواد سے آج جس تیز رفتار سے شاندار رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے، اس کی تصویریں پورے ملک کو مبہوت کر رہی ہیں۔ یہ اپنی ’وراثت پر فخر‘ کا نیا احساس بھی ہے، اور ترقی کا نیا باب بھی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ جس جگہ پر لتا چوک تیار کیا گیا ہے، وہ ایودھیا میں ثقافتی اہمیت کے مختلف مقامات کو جوڑنے والے مرکزی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ چوک، رام کی پیڑی کے قریب ہے اور سریو کی مقدس دھارا بھی اس سے بہت دور نہیں ہے۔
لتا دیدی کے نام پر چوک کی تعمیر کے لیے اس سے بہتر جگہ اور کیا ہوتی؟ جیسے ایودھیا نے اتنے زمانے کے بعد بھی رام کو ہمارے من میں برقرار رکھا ہے، ویسے ہی لتا دیدی کے بھجنوں نے ہماری روح کو ’رام مئے‘ بنائے رکھا ہے۔ مانس کا منتر ’شری رام چندر کرپالو بھَج من، ہرَن بھو بھئے دارونم‘ ہو، یا میرا بائی کا ’پایو جی میں نے رام رتن دھن پاپو‘، بے شمار ایسے بھجن ہیں، باپو کا محبوب بھجن ’ویشنو جن‘ ہو، یا پھر ہر ایک کے من اتر چکا ’تم آشا وشواس ہمارے رام‘، ایسے میٹھے گیت ہوںٍ! لتا جی کی آواز میں انہیں سن کر بے شمار ہم وطنوں نے بھگوان رام کے دَرشن کیے ہیں۔ ہم نے لتا دیدی کی آوازوں کی ’دیویہ‘ مٹھاس سے رام کے ’الوکِک مادُھریہ‘ کو محسوس کیا ہے۔
موسیقی میں اثر صرف الفاظ اور آوازوں سے نہیں آتا۔ یہ اثر تب آتا ہے، جب بھجن گانے والے میں وہ جذبہ ہو، وہ بھکتی ہو، رام سے وہ ناطہ ہو، رام کے لیے وہ عقیدت ہو۔ اسی لیے، لتا جی کے ذریعے ادا کیے گئے منتروں میں، بھجنوں میں صرف ان کی آواز ہی نہیں بلکہ ان کا عقیدہ، روحانیت اور تقدس بھی گونجتا ہے۔
لتا دیدی کی آواز میں آج بھی ’وندے ماترم‘ کی اپیل سن کر ہماری آنکھوں کے سامنے. بھارت ماتا کی عظیم الشان شکل و صورت نظر آنے لگتی ہے۔ جس طرح لتا دیدی ہمیشہ شہریوں کے فرائض کو لے کر بہت بیدار رہیں. ویسے ہی یہ چوک بھی ایودھیا میں رہنے والے لوگوں کو. ایودھیا آنے والے لوگوں کو فرائض کی تعمیل کا سبق دے گا۔ یہ چوک، یہ وینا، ایودھیا کی ترقی اور ایودھیا کے حوصلے کو بھی مزید معنی خیز بنائے گا۔ لتا دیدی کے نام پر بنا یہ چوک، ہمارے ملک میں فنون کی دنیا سے وابستہ لوگوں کے لیے بھی حوصلہ کے مقام کی طرح کام کرے گا۔
یہ بتائے گا کہ بھارت کی جڑوں سے جڑے رہ کر، جدیدیت کی جانب بڑھتے ہوئے. بھارت کے فن و ثقافت کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا. یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ بھارت کی ہزاروں سال پرانی وراثت پر فخر کرتے ہوئے. بھارت کی ثقافت کو نئی نسل تک پہنچانا. یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے لتا دیدی جیسی جفا کشی اور اپنی ثقافت کے تئیں بے پناہ محبت لازمی ہے۔
مجھے یقین ہے، بھارت کے فنون کی دنیا کے ہر ’سادھک. کو اس چوک سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ لتا دیدی کی آواز برسہا برس تک ملک کے ذرے ذرے کو جوڑے رکھے گی. اسی یقین کے ساتھ، ایودھیا کے باشندوں سے بھی میری کچھ توقعات ہیں. مستقبل قریب میں رام مندر بننا ہے. ملک کے کروڑوں لوگ ایودھیا آنے والے ہیں. آپ تصور کر سکتے ہیں ایودھیا کے باشندوں کو ایودھیا کو کتنا عظیم الشان بنانا ہوگا. کتنا خوبصورت بنانا ہوگا، کتنا صاف ستھرا بنانا ہوگا. اور اس کی تیاری آج سے ہی کرنی چاہیے. اور یہ کام ایودھیا کے ہر باشندے کو کرنا ہے.
ہر ایودھیا والے کو کرنا ہے، تبھی جا کر ایودھیا کی آن بان شان. جب کوئی بھی مسافر آئے گا، تو رام مندر کی عقیدت کے ساتھ ساتھ ایودھیا کے انتظامات کو. ایودھیا کی عظمت کو، ایودھیا کی مہمان نوازی کو محسوس کرکے جائے گا۔ میرے ایودھیا کے بھائیوں اور بہنوں تیاریاں ابھی سے شروع کر دیجئے. اور لتا دیدی کا یوم پیدائش ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حوصلہ بخشتا رہے۔ چلئے بہت سی باتیں ہو چکیں، آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔
شکریہ!
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…