Urdu News

ابوالفیض جیسی شخصیت صدیوں میں جنم لیتی ہے: صاحبزادہ شوکت علی خاں

ابوالفیض جیسی شخصیت صدیوں میں جنم لیتی ہے: صاحبزادہ شوکت علی خاں

ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی کی حیات و خدمات اور تحقیقی کاموں پر روشنی ڈالتے ہوئے عربک پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ٹونک کے فاؤنڈر ڈائرکٹر صاحبزادہ شوکت علی خاں نے بہت ہی جذباتی انداز میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ عثمانی صاحب جیسی شخصیت صدیوں میں جنم لیتی ہیں۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، حکومت ہند کے مالی تعاون سے آزاد ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی، جے پور کے زیراہتمام 27فروری کو منعقدہ یک روزہ سمینار بعنوان ”راجستھان میں اردو تحقیق کے پروردہ: ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی“ کی صدارت کرتے ہوئے مزید کہا کہ بابائے اُردو راجستھان ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی میرے ساتھی میرے دوست اور میرے ہمنوا تھے۔وہ تاریخ ساز شخصیت تھے، ان کی خدمات کے اعتراف میں آج کا یہ سمینار بھی یقینا اہمیت کا حامل ہے۔سیمنار میں جے پور، چورو، بیکانیر، اجمیر، ٹونک، جودھپور و دیگر مقامات سے تشریف لائے اسکالرس نے شرکت کی۔

سیمینار کا آغاز مولوی محمد اقبال کی تلاوت قرآن سے ہوا اور جے پور کے معروف شاعر غلام رسول انیس نیازی نے نعت شریف پیش کی۔ ادارہ کے سکریٹری محمد محمود خان نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، حکومت ہند کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عقیل احمد کا پیغام پڑھا جس میں انہوں نے سیمینار کے انعقاد کے لیے تنظیم کا شکریہ ادا کیا اور اردو والوں کو اردو کی ترقی کے لیے حکومت ہند کی جانب سے شروع کیے گئے اردو کمپیوٹر سینٹر اور دیگر اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کا پیغام دیا۔

ڈاکٹر زیبا زینت نے نظامت کرتے ہوئے کی نوٹ میں کہا کہ ابوالفیض عثمانی صاحب کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔جہاں جہاں راجستھان کے علمی، ادبی، تحقیقی، تصنیفی تاریخی، حلقوں میں ذکر کیا جائے گا وہاں ہر شعبہ میں ہر گوشہ میں ابوالفیض عثمانی صاحب کانام لازمی طور پرلیا جائیگا۔ عثمانی صاحب جے پور کے بڑے علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابوالفیض عثمانی صاحب کے اسلاف نے جے پور میں علم و ادب کے چراغ روشن کئے یہ بھی قابل ذکر ہے کہ مختلف طلبا نے آپ کے خاندان کی تین پشتوں کے تقریباً 6 شخصیات کی حیات و کارناموں پر تحقیقی مقالے مرتب کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ آپ کی حیات اور ادبی خدمات پر بھی لکھے گئے مقالے پر محترمہ شگفتہ نسرین کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔

صوبہ راجستھان کی تشکیل کے بعد اردو میں باقاعدہ تحقیق کا آغاز آپنے ہی 1970میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے ”راجستھان میں اردو زبان و ادب کے لیے غیر مسلم حضرات کی خدمات“ کے ساتھ کیا اوریہ راجستھان کا اوّلین تحقیقی مقالہ ہے۔اس مقالے کی تکمیل کے بعد عثمانی صاحب کی علم دوستی میں اضافہ ہوا اور آپنے تصنیف و تالیف ترجمہ و ترتیب، مقالات و مضامین، تکاریز و تبصرے اور ان کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی کے نشریات کا ایک نایاب سلسلہ شروع کیا۔

عثمانی صاحب کی خوبیوں کا گر ذکر کریں تو سب سے اول انکا حافظہ قابل رشک تھا۔ آپ اردو کے سکالرس اور محبانِ ادب کے لیے ہمہ وقت تیاررہتے تھے۔ راجستھان کی تاریخ ہو، مختلف صوبہ جات کی تاریخ، ادبی محفلوں، مشاعروں، سیمیناروں اور دیگر پروگرام کی تاریخوں کے ساتھ ہی صوفیوں،شاعروں، ادیبوخطیبوں کے نام اور پتے و ہر ایک واقعہ جگہ سن دن اور شخص انہیں برجستہ حفظ ہوتا اور کسی تحقیقی مقالے میں چربے کے لیے کتاب کا حوالہ ساتھ ساتھ دیتے وقت زبان بیحد سلیس، ادبی اور معیاری وعام فہم اور علمی رنگ آہنگ سے پُر ہوتی۔

آپکی تحقیق میں دلائل پر توجہ رہتی عثمانی صاحب کو ہندی، انگلش، فارسی، عربی، راجستھانی اور ڈھونڈھاری زبانوں پر عبور حاصل تھا جس بھی زبان پر تحریر کے لیے قلم اٹھاتے وہ اپنی مثال آپ ہوتی اور یہی حال اس وقت بھی ہوتا جب کسی کی اصلاح یا مدد کر رہے ہوتے۔ املا کی بہتری، لکھاوٹ کی خوبصورتی اور دلکش جملوں کے قائل تھے۔ ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ آپ شاعر اور ترجمہ نگار بھی تھے۔ مخطوطات شناسی میں بھی ماہر تھے اور تاریخ گوئی سے بھی شغف رکھتے تھے ساتھ ہی تنقید اور تجزیہ میں تو اپنی مثال تھے۔ داکٹر زیبا نے عثمانی صاحب متعلق دیگر معلومات کا خاکہ پیش کیا۔

سیمنار میں مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور سے تشریف لائے پروفیسر عزیزاللہ شیرانی نے کہا کہ عثمانی صاحب نے اردو پڑھنے والوں اور اسکالر کی بیلوث خدمت کی ہے۔آپ ہمہ وقت اردو اسکالر کے ئے حاضر رہتے تھے۔ڈاکٹرشیرانی نے کہا کہ مجھے عثمانی صاحب کا شاگرد ہونے کاشرف حاصل ہوا جس پرمجھے فخر ہے۔ آپنے فرمایا کہ راجستھان میں اردو تحقیق کے فروغ کے لئے بہت قربانیاں دیں۔ آئی ایل ڈی اسکلس یونیورسٹی کے کنٹرولر ایگزامینیشن ڈاکٹر محمد حسین نے کہا کہ اردو تحقیق میں آپکا کوئی ثانی نہیں،راجستھان میں کوئی اردو اسکالر ایسا نہیں جس کی عثمانی صاحب نے تحقیق میں مدد نہ کی ہو۔آپ تحقیق کی باریکیاں سمجھاتے تھے۔ شعبۂ صدر اردو راجستھان یونیورسٹی محترمہ ناصرہ بصری نے کہا کہ اردو ریسرچ کے ذریعہ ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی صاحب نے ہندو مسلم ایکتا اور قومی یکجہتی کے میدان میں اہم رول ادا کیا ہے۔

 مذکورہ سمینار میں آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس، نئی دہلی کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر سیّد احمد خاں نے بطور مہمان ذی وقار شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ آج سے تیس سال پہلے جناب انعام الحق علیگ مسکینی صاحب نے اردو اکادمی راجستھان کو جو اعزاز بخشا تھااس میں ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی صاحب کی بہترین کارکردگی کی شمولیت خاص اہمیت کی حامل تھی۔ ڈاکٹر سیّد احمد خاں نے مزید کہا کہ آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے صوبائی حکومت سے راجستھان میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا جو مطالبہ کیا گیا تھا اس تحریک کو نئے سرے سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اردوداں عوام کی بھاری اکثریت راجستھان میں موجود ہے اور دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوجانے کے بعد اردو روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

آل انڈیا ریڈیوکی ایگزیکیوٹیو محترمہ ریشما خان نے کہا کہ اردو قومی یک جہتی کی زبان ہے۔ آکاشوانی سے بہت پروگام اردو زبان میں نشر ہوتے ہیں۔ آپنے کہا کہ عثمانی صاحب آکاشوانی کے اردو پروگراموں سے بہت عرصہ تک جڑے رہے۔درگاہ خواجہ صاحب اجمیر کے نائب ناظم ڈاکٹر محمد عادل نے عثمانی صاحب کی زندگی سے متعلق ایک دستاویز ”ڈاکٹر ابوالفیض ایٹ اے گلانس“ فولڈر کی شکل میں پیش کیا۔اس موقع پر آپ نے درگاہ کمیٹی کی جانب سے ہزاروں کتابوں کے ڈجیٹل کئے جانے کی جانکاری شیئر کی۔

ڈاکٹر امبیڈکر لا یونیورسٹی کے کنٹرولر آف ایگزامینیشن ڈاکٹر ای اے حیدری نے کہا کہ راجستھان میں اردو کی کوئی بھی تحقیق عثمانی صاحب کی کتابوں کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔

راجستھان اردو لیکچررسنگھ کے صوبائی صدر و اردو اسکالرڈاکٹر شمشاد علی نے کہا کہ ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی کی راجستھان سے متعلق اردو تحقیق بے مثال ہے جس کی نذیر مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔

شاہد پٹھان صاحب نے بھی اپنا مقالہ پڑھ کر عثمانی صاحب کو خراج عقیدت پیش کی۔ عثمانی صاحب پرتحقیق مقالہ تحریر کرنے والی ڈاکٹر شگفتہ نسرین بہت ہی جذباتی انداز میں عثمانی صاحب کی زندگی کے گوشوں، علمی و تحقیقی سفر پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر شگفتہ نے ”ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی کاملؔ کی شعری خدمات“ موضوع پر مقالہ پیش کیا۔ سیمنار میں بیکانیر سے تشریف لائے ڈاکٹر ضیاالحسن قادری نے ”قومی ایکتا کو فروغ ینے والے محقق: ڈاکٹر ابو الفیض عثمانی  “ راجپوتانہ ریسرچ اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شاہد جمالی نے ”ڈاکٹر عثمانی میری نظرمیں“موضوعات پرمقالے پڑھے۔

اختتامی اجلاس میں عثمانی صاحب کے صاحبزادوں ارشد عثمانی اور اسلم عثمانی نے بہت ہی جذباتی انداز میں اپنے والد کی یادیں ساجھا کیں۔

 پہلے اور اختتامی اجلاس کی نظامت کے فرائض بحسن و خوبی ڈاکٹر زیبا زینت (وابستہ آل انڈیا ریڈیو، جے پور) نے انجام دیے اور دوسرے اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹرشگفتہ نسرین نے بخوبی انجام دئے۔

اس موقع پر پروفیسر عزیز اللہ شیرانی صاحب کی دو ڈاکٹر ضیا الحسن قادری صاحب کی ایک اور ڈاکٹر ای۔اے۔ حیدری صاحب کی ایک کتاب کے ساتھ، ڈاکٹر محمد عادل کی جانب سے”ابوالفیض عثمانی ایٹ گلانس“  فولڈر کا اجرا بھی عمل میں آیا۔اسی موقع پر چورو کے مہتاب حسین کے بنائے پینسل اسکیچ کو ارشد عثمانی اور اسلم عثمانی کو پیش کیا گیا۔

آزاد ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائیٹی کی جانب سے مہمانوں اور مقالہ نگار حضرات کو منٹوپیش کئے۔ڈاکٹر زیبا نے سبھی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سیمنار کے اختتام کا اعلان کیا۔

شرکا میں بڑی تعداد میں شرکت کی جن میں خواتین کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ ڈاکٹر غلام قطب چشتی، ڈاکٹر سفّان، ڈاکٹر فرقان، جناب رئیس احمد، محمد اقبال (بیورو چیف دی ہندو)، کلیم خاں جنرلسٹ، وسیم اکرم قریشی جنرلسٹ، اعظم زیدی،محبوب،جمیل اختر، تبسم رحمانی، عارف حسین نیازی، خالد محمود، رضوان حسین نیازی،  نثار احمد،رام جی لال مینا،سفیان نعمانی ڈاکٹر شوکت علی، شیخ اسرارالحق، حکیم عطاء الرحمن اجملی اور اسرار احمد اُجینی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

Recommended