نئی دہلی: اجتماعی قیادت کے فروغ، اتحادو اتفاق کے قیام اور تمام مسلمانوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر لانے کے لیے آج دہلی میں مسلم تنظیموں سے جڑے بڑے مذہبی رہنما اور سرکردہ لوگوں کی کی میٹنگ ہوئی میٹنگ سے میڈیا کو دور رکھا گیا۔ اس میٹنگ میں میں پانچ نکاتی قرارداد بھی پاس کی گئی، جس میں میں ظلم کے خلاف دستور ہند کی رو سے تمام شہریوں کو ملے ہوئے دفاع کے حق کے استعمال کی وکالت کی گئی۔
دوسری تمام تجاویز کے ساتھ ساتھ قرارداد میں یہ بھی کہاگیا کہ یہ اجلاس مسلمانان ہند کو یاد دلاتاہے کہ قانون شکن اور سماج دشمن عناصر کے دہشت گردانہ حملوں کا مقابلہ پوری ہمت کے ساتھ اور ملکی قوانین کے تحت اپنی جان ، مال اور عزت وآبرو کے دفاع کیلئے دیئے گئے حق کو استعمال کرتے ہوئے اور قانون کے دائرے میں کیا جائے۔
پانچ نکاتی قرارداد میں کہاگیا کہ اتحاد واتفاق کے فروغ کے لیے ہر ممکنہ طریقہ کو اپنائیں اور ایسی گفتگو سے احتراز کریں جس سے کسی بھی ملک اور مشرب سے تعلق رکھنے والوں کی دل آزاری ہو، مسلمان ایمان پر قائم رہیں اور استقامت کا ثبوت پیش کریں ۔ برادران وطن سے خوشگوار تعلقات قائم کئے جائیں ، مسلم طلبہ وطالبات کی توجہ تعلیم کے ایسے شعبہ کی جانب مبذول کرائی جائے جس سے سوسائٹی کو فائدہ ہو ۔ مظلوموں کی مدد ہواور دیش کی ترقی کا ذریعہ بنے۔
میٹنگ میں سبھی مسلک سے تعلق رکھنے والی ملک سرکردہ اور اہم شخصیات نے شرکت کی اور ایک لائحہ عمل طے کیا۔ مولانا رابع حسنی ندوی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ملی مسائل کے حل کے لیے ایک ساتھ جمع ہونا اور سبھی کا ساتھ بیٹھنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اتحاد کی راہ میں سبھی رکاوٹوں کو ختم کیا جائے۔
مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیت علماہندنے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ تمام طبقات، مسلک اور مختلف گروہوں کے ساتھ بیٹھنا ضروری ہے، پہلے بھی ہم یہ کام کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی یہ کرنا ضروری ہے۔ انٹرنیٹ کے مثبت استعمال پر بھی توجہ دینے کی ضرروت ہے اور برادران وطن کے ساتھ بہتر تعلق قائم کرنا بھی وقت کا تقاضا ہے۔
مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے کہاکہ اس وقت ہندوستان سمیت دنیا بھرمیں حق وباطل کے درمیان کشمکش جاری ہے اور افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ ہمارے خواص پر خوف قائم ہے ۔ ضرروت ہے کہ آج کی کانفرنس سے تین اہم پیغام جاری کیا جائے ۔ مسلم قائدین کی جانب سے اتحاد واتفاق کا ایک مشترکہ پیغام جاری کیا جائے اس کے علاوہ مختلف قبائل اور ذات سے الگ الگ تعلق قائم کیا جائے ، سبھی کو ایک ہندو قوم ماننے کے بجائے سبھی سے الگ الگ ہم رابطہ قائم کریں ،ایک سازش کے تحت سبھی کو ایک قوم قراردینے کی کوشش کی جارہی ہے یہاں تک سکھ اور بڈھسٹ کو بھی ہندو قوم قراردے دیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ مولانا نعمانی نے یہ تجویز بھی دی کہ مختلف مذاہب کے رہنماﺅں کے ساتھ ہم ایک رسمی ملاقات کریں ، آپسی احوال شیر کیں ، ساتھ میں کھانا پینا کریں۔