جس زمانے میں سید محمود (1850-1903) ہمہ وقت [محمڈن اینگلو اوریئنٹل ] کالج کے انتظام کو چست درست کرنے میں غلطاں و پیچاں تھے، اسی زمانے میں آہستہ آہستہ زمین ان کے پیروں کے نیچے سے کھسکتی جا رہی تھی۔ ۔۔۔ سر سید کی حیات میں ہی جب (1889ء) انہیں نائب سکریٹری مقرر کیا گیا تھا تو سمیع اللہ خاں جیسے مخالفین کو ایک اور بہانہ مل گیا تھا، سر سید کے خلاف محاذ آرائ کی مہم چھیڑنے کا۔
محسن الملک نے پہلے سے ہی سید محمود کے خلاف ان کو بدنام کرنے کی سازش شروع کر دی تھی۔ اسی سازش کا ایک حصہ یہ تھا کہ محسن الملک نے یہ افواہ پھیلا دی تھی کہ سر سید کی تدفین چندے کی رقم سے ہوئ، اور یہ بھی کہ، چندے کی وہ 50 روپئے کی رقم محسن الملک نے عطا کی۔ اس مذموم افواہ کو پھیلانے میں پاپا میاں شیخ عبداللہ کی آپ بیتی نے بھی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سر سید کے آخری ایام کے علاج کا خرچ، جو کہ ایک خطیر رقم (150 روپئے) تھی، خود سید محمود نے ادا کی تھی۔
سمیع اللہ اور وقارالملک صاحبان کی سکریٹری شپ کی دعویداری تبھی ختم ہو گئ تھی جب انہوں نے نواب رام پور سے 50 ہزار روپئے کا عطیہ ملنے کی ایک شرط یہ رکھوا دی تھی کہ نواب صاحب کے اختیارات (کالج کے معاملات میں) میں اضافہ کر دیا جائے گا۔ اب مسٹر بیک اور محسن الملک اور لیفٹننٹ گورنر کے درمیان ایک سمجھوتہ ہو گیا تھا کہ سید محمود کو برطرف کر کے محسن الملک کو کالج کا سکریٹری مقرر کر دینا ہے۔ جس میں محسن الملک کامیاب ہو گئے۔
انگریزوں اور سید محمود کے درمیان کشمکش تبھی سے جاری تھی جب نسلی امتیاز کی بنیاد پر سید محمود نے ہائ کورٹ جج کے عہدہ سے استعفی (1893ء) دے دیا تھا۔
سکریٹری شپ سے ہٹائے جانے سے سید محمود کی "انا" پر اس قدر گہری ضرب لگی تھی کہ جس کی وجہ سے ان کی پوری شخصیت ایک طرح سے منتشر ہو کر رہ گئ تھی۔ ان کا رد عمل نہایت شدید تھا۔ اب وہ ایک زخمی شیر کی مانند تھے، جس کو کسی بھی طرح سے قابو میں رکھنا محال تھا۔ وہ ہر ایک سے انتقام لینے کے متمنی نظر آتے تھے۔ انہیں اپنی ذلت اور رسوائی کا بھی شدت سے احساس تھا۔ ۔۔۔اپنے قلم کی نوک سے لوگوں کو لہو لہان کر کے وہ اپنے جذبہ انتقام کی تسکین کا سامان بہم پہنچاتے تھے۔ سید محمود کے قلم میں اب بھی کافی رعنائ باقی تھی، جس کے ذریعہ وہ محسن الملک کے ذریعہ پیش کردہ ہر تجویز کی مخالفت نہایت موثر انداز سے کرتے تھے۔ ۔۔۔یوروپین اسٹاف بھی اب سید محمود کی انتقامی کارروائیوں کے نشانہ پر رہتا تھا۔ کالج کے اسٹاف کا ہر وہ شخص جو مسٹر بیک اور مسٹر ماریسن سے کسی طرح کی وفاداری کا مرتکب ہوتا تھا، سید محمود کی انتقامی کارروائیوں کا ہدف ضرور بنتا تھا۔ ۔۔۔سید محمود نے محسن الملک پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے اردو کے نام پر کالج کو سیاست کا اکھاڑہ بنا دیا تھا، حالاں کہ بانئ کالج، سر سید، کالج کو سیاست سے ہمیشہ علیحدہ رکھنے کی پالیسی پر گامزن رہے تھے۔
ان حالات میں محسن الملک پر انگریزی حکومت کا دباؤ پڑا تو انہوں نے کالج کی سکریٹری شپ کا عہدہ قائم رکھنا ضروری سمجھا، نہ کہ، اردو تحریک کو فوقیت دینا۔ یعنی، ایک بار پھر انہوں نے اقتدار میں بنے رہنے کا جگاڑ ڈھونڈ لیا۔ ڈپٹی نذیر احمد نے بھی محسن الملک کی عہدے کی لالچ کی کمزوری کا انکشاف کیا اور ان کے خلاف دس الزامات کی ایک فہرست جاری کی۔ یعنی محسن الملک موقعہ پرستی سے کام لینے والے کے طور پر بد نام ہوتے گئے۔ سنہ 1900 ء کے اخیر سے سید محمود کو سیتا پور، اپنے چچا زاد بھائ کے ساتھ، سکونت پذیر ہونے کو مجبور کر دیا گیا، جہاں 1903 میں ان کا انتقال ہو گیا۔
ادھر محسن الملک انگریزوں کے قریب ہوتے ہوتے، شملہ ڈیپوٹیشن (اکتوبر 1906ء) کے وقت تو مسلم خواص کی اقتدار کی ہوس کو پوری کروانے کی غرض سے، حکومت کے سامنے پیش کردہ دس مطالبات میں، کالج کو یونی ورسٹی کا درجہ دلوانے کے اہم ترین مطالبہ کو فہرست کے آخری پائیدان میں دھکیل دیا، اور مسلمانوں کے لئے کونسلوں کی ممبری کے مطالبے کو سر فہرست لا دیا۔ محسن الملک اور ان کے جاں نشیں، وقارالملک اب مسلم لیگ کے سکریٹری بھی ہو گئے۔