Urdu News

پوسٹ گریجویٹ چائے والی کا کاروبار ٹھپ،شادی میں بھی پیدا ہورہا ہے مسئلہ

پوسٹ گریجویٹ چائے والی کا کاروبار ٹھپ

پٹنہ، 6 اگست(انڈیا نیرٹیو)

دربھنگہ سے پٹنہ آئی ناز بانونے انگریزی میں ایم اے کیاہے۔ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کی ، لیکن کہیں کامیابی نہیں ملی۔ گھر کی معاشی حالت بھی اچھی نہیں تھی۔ جب اس نے کچھ کرنے کا فیصلہ کیا اور دربھنگہ شہر میں چائے کی دکان لگائی تو پورا شہر اس کا دشمن بن گیا۔

بہتر ماحول اور کاروبار کے لیے اس نے پٹنہ کے گنگا پتھ پر چائے کی دکان لگائی ، لیکن اب اس کی شادی میں مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔معاشرے میں اب کوئی بھی اس سے شادی نہیں کرنا چاہتاہے۔ ناز بانو کہتی ہیں کہ وزیراعظم بھی چائے بیچتے تھے لیکن آج لوگ ان سے ملنے کو ترستے ہیں تو شاید مستقبل میں کچھ اچھا کر سکوں اور لوگوں کی سوچ بھی بدل جائے۔

جب میڈیا نے ناز سے بات کی تو ناز نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں جب معاملہ پردے پر آسکتی ہے تو شادی میں بھی مسائل ہوں گے۔ سب کے ذہن میں یہ بات رہتی ہے کہ لڑکی چائے بیچتی ہے۔ وہ بہت سارے مردوں کے درمیان رہتی ہے۔ مردوں کو دیکھتے رہتی ہے۔ ان سب کا اثر میری زندگی پر پڑے گا۔ فی الحال اسٹال پر دھیان ہیں۔ لیکن جب لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ پردہ سے باہر آکر چائے بیچ رہی ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ شادی پر بھی اثر پڑے گا۔

ویسے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہماری قسمت ہمیں آگے لے جائے اور ہمیں لڑکا بھی مل جائے۔ ابھی کوئی لڑکا نہیں مل سکا ہے اس بات کو میں مانتی ہوں۔ لیکن بعد میں کہیں مل جائے۔ وزیراعظم چائے بھی بیچتے تھے لیکن آج لوگ ان سے ملنے کو ترستے ہیں تو شاید مستقبل میں کچھ اچھا کر سکوں اور لوگوں کی سوچ بھی بدل جائے۔

میرے چائے بیچنے کے فیصلے پر میرے معاشرے والے جیسی بھی باتیں کرتے ہیں ، اب میں نے سب کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے۔ میں اب کسی سے فون پر بات نہیں کرتی ہوں ، تاکہ مجھے کچھ سننے کو نہ ملے۔ میں نہیں چاہتی کہ ان کی باتوں سے میرا دماغ خراب ہو اور میرا کاروبار خراب ہوجائے۔

اگر آپ مسلم کمیونٹی میں ہیں اور آپ گھر سے باہر جا رہے ہیں تو آپ سے ضرور پردہ کرنے کو کہا جائے گا۔ اچھا مجھے آگے بڑھنا ہے ، کاروبار کرنا ہے۔ اگر آپ ان کی باتوں میں الجھ گئے تو آپ کچھ نہیں کر پائیں گے کیونکہ مجھے کاروبار نے کرنا ہے، انہیں نہیں۔ میرا مقصد اپنے اسٹال کو دور دور تک لے جانا ہے۔ کیونکہ میری پہچان اسی اسٹال سے بنی ہے۔ میں صرف لوگوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ اگر کوئی شخص ا?گے بڑھنا چاہتا ہے تو اس کا ساتھ دیں۔

جب میں نے دربھنگہ میں ایک اسٹال لگائی تھی تو مجھے ہر روز ہندو مسلم بات چیت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پٹنہ میں بھی لوگ امتیازی سلوک کرتے ہیں ، لیکن وہاں سے کم۔ اس کے ساتھ ساتھ جب لوگ دربھنگہ میں میرے اسٹال پر آکر چائے منگواتے تھے ، پھر جب انہوں نے میرا نام پوچھا تو انہیں معلوم ہوا کہ میں مسلمان ہوں۔ پھر چائے کا آرڈر خود ہی کینسل کر دیتے تھے۔ وہ میرے منہ پر کہتے تھے کہ ہم نہیں پی سکتے کیونکہ ہم ہندو ہیں۔ پھر وہ اپنی ذات بتانے لگتے تھے۔ اس کا میری زندگی پر گہرا اثر ہوا۔ پہلے یہ سب سنا تھا لیکن اب دیکھا جائے تو یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔

ناز نے بتایا کہ جب میں نے شروع میں میرین ڈرائیو پر ایک اسٹال لگائی تو وہ بہت اچھا بک رہا تھا۔ جب سے میرین ڈرائیو پر پارکنگ کے حوالے سے گائیڈ لائن جاری ہوئی ہیں،صارف کم آرہے ہیں۔ لوگوں کو اب بہت دور پارک کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے لوگ پارکنگ سے یہاں تک پیدل نہیں آنا چاہتے۔

اس کے ساتھ ساتھ چالان کی وجہ سے لوگ خوفزدہ بھی ہیں ، یہاں آنے والوں کا کہنا ہے کہ ہم 15 روپے کی چائے پینے پر 1000 روپے کا چالان نہیں دے سکتے۔ میرے ساتھ یہاں کے دیگرا سٹال مالکان کا کاروبار بھی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ پہلے جب شروع کی تو 5 لیٹر سے زیادہ دودھ لاتی تھی لیکن اب ایسا وقت آ گیا ہے کہ ایک لیٹر دودھ بھی ختم نہیں ہو رہا۔ دوسری طرف اگر چائے کی بات کی جائے تو یہاں چائے کا ایک کپ 15 روپے میں ملتا ہے۔

ناز بانو بہار کے دربھنگہ ضلع میں واقع گھنشیام پور کی رہنے والی ہے۔ اس کے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ ناز تمام بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہے۔ دونوں بڑے بھائی دہلی میں کام کرتے ہیں ، جب کہ بڑی بہن شادی شدہ ہے۔ اس نے اپنی اعلیٰ تعلیم ایل این ایم یو دربھنگہ سے مکمل کی ہے۔ ناز انگریزی مضمون کی طالبہ ہے۔

انگریزی کے ساتھ بطور مضمون گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ دونوں پاس کیے ہیں۔ ناز کے مطابق اتنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی انہیں نوکری نہیں مل سکی۔ انگریزی مضمون میں پوسٹ گریجویشن کرنے کے بعد بھی وہ بے روزگار ہے۔ ایسے میں پیٹ بھرنے کے لیے کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کئی جگہوں پر نوکری کے لیے کوشش کرنے کے بعد بھی اسے کہیں نوکری نہ مل سکی ، چنانچہ آخر کار اس نے فخر سے اپنا کاروبار شروع کر دیااور اب وہ اس کاروبار کو مزید آگے لے جانا چاہتی ہے۔

Recommended