Urdu News

آیا صوفیا: طیب اردغان نے تاریخی چرچ کو مسجد میں تبدیل کیا

آیا صوفیا: طیب اردغان نے تاریخی چرچ کو مسجد میں تبدیل کیا

آیا صوفیا: طیب اردغان نے تاریخی چرچ کو مسجد میں تبدیل کیا
آج دنیا کی نظریں استنبول کے چورا چرچ پہ ٹکی ہوئی ہیں۔ سنہ 1945سے یہ چرچ ایک میوزیم میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اسے صدر کے ایک حکم نامے سے دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے۔ امریکا کے مشہور سیاست داں تلسی گبارڈ نے رجب طیب اردغان کو ”اسلام کے جہادی خبط“ میں ڈوبا ہوا انسان قرار دیا تھا۔ یہ ابھی چند روز پہلے کی بات ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان عثمانیہ سلطنت کی ہر یاد کو تازہ کر دینا چاہتے ہیں۔ وہ دن رات محنت کر رہے ہیں کہ کسی طرح سلطنت عثمانیہ کے ہر ادھورے خواب کو پورا کر دیا جائے۔ اسی سلسلے میں آیا صوفیہ کے تاریخی چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے کے کچھ ہی ہفتوں بعد ایک اور چرچ کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بازنطینی دور کا یہ تاریخی چرچ چورا میں واقع تھا۔ یہ یونیسکو کی طرف سے ورلڈ ہیریٹیج عمارت کے زمرے میں شامل ہے۔ یہ چرچ سنہ 1945سے میوزیم کے طور پہ استعمال کیا جا رہا تھا۔ لیکن استنبول کے اس خوبصورت چرچ کو ابھی رجب طیب اردغان کے ریڈیکل اسلامی اردوں نے مسجد میں تبدیل کر دیا ہے۔
ترکی کے سرکاری گزٹ میں ایک صدارتی فرمان جاری ہوا ہے، اس صدارتی فرمان کے مطابق آیا صوفیہ کے چرچ کی طرح ہی اب استنبول کے اس تاریخی چرچ کو بھی مسجد میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب اسے مسلمانوں کی عبادت کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج فہرست سے بھی اب اسے ہٹا دیا جائے گا۔ صدارتی فرمان کے مطابق اب اس چرچ کو ترکی کے ڈائیریکٹریٹ آف ریلیجیس افیئر کو سونپ دیا گیا۔ یعنی ترکی کی وہ وزارت اب اس کی دیکھ بھال کرے گی جس کے پاس مذہبی امور کے معاملات ہیں۔ یونیسکو کی ایک کنزرویشن رپورٹ کے مطابق اس چرچ کی تعمیر چودہویں صدی کے ابتدائی زمانے میں ہوئی تھی۔ تب استنبول کو قسطنطنیہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ پانچویں صدی، چھٹھی اور نویں صدہ کی نشانیاں بھی اس چرچ سے وابستہ ہیں۔ قسطنطنیہ کی مشہور دیوار سے لگی یہ شاندار عمارت اب مسجد میں تبدیل کر دی گئی ہے کیونکہ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان اپنے مشن میں بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ دنیا کی پرواہ بھی نہیں کر رہے ہیں اور انھیں اس بات کی فکر نہیں کہ اس سے دنیا میں کس طرح کا رد عمل سامنے آئے گا۔
استنبول کے اس تاریخی چرچ کو سنہ 1077میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔ بارہویں صدی میں زبردست زلزلہ آیا تھا جس میں یہ چرچ بھی کسی حد تک منہدم ہو گیا تھا۔ اس کے بعد بازنطینی حکومت نے اسے دوبارہ تعمیر کرایا۔ بعد میں لاطینی حکومت کے دوران اسے کافی حد تک نظر انداز کیا گیا۔ سنہ 1315 میں اس عمارت پر دوبارہ کام ہوا اور اسے نقش و نگار سے سجایا گیا۔ سنہ 1508 میں اسے عتیق علی پاشا نے مسجد میں تبدیل کر دیا تھا۔ وہاں جو خوبصورت پچی کاری کی گئی تھی وہ بیسویں صدی کی ابتدا تک یوں ہی تھی۔ لیکن سنہ 1948میں جب اسے باقائدہ بازنطینی انسٹیٹیوٹ آف امریکا نے اپنے انڈر میں لے لیا تب اسے ایک نئی شکل دی گئی۔ سنہ1958 میں اس میوزیم کو عام پبلک کے لئے کھول دیا گیا تھا۔ گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں ترکی کی کونسل آف اسٹیٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ سنہ 1945 میں اس عمارت کو میوزیم میں تبدیل کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا تھا وہ فیصلہ غلط تھا۔ واضح رہے کہ کونسل آف اسٹیٹ ترکی کی سب سے بڑی ایڈ منسٹریٹیو کورٹ ہے۔ اس لئے اب صدر رجب طیب اردغان نے ایک بار پھر تاریخ کو بدلنے کا کام کیا ہے۔
دراصل ترکی کا یہ فیصلہ ساری مہذب دنیا کے لئے ایک چیلینج ہے۔ صدر رجب طیب اردغان کی اس فکر نے ملک کو چھہ صدی پیچھے پہنچا دیا ہے۔ ترکی کے صدر نے اپنے آپ کو صدارتی طور پر الگ تھلگ کر لیا ہے۔ یونان کی کلچر منسٹر لینا مینڈونی نے صدر رجب طیب اردغان کے اس فیصلے پر بہت سخت اعتراض جتایا ہے۔ اس سال 24جولائی کو تاریخی چرچ آیا صوفیہ میں صدر رجب طیب اردغان کی موجودگی میں جمہ کی نماز پڑھی گئی۔ اس واقعے کو دنیا بھر نے قابل ملامت قرار دیا۔ لیکن اب استنبول کے ہولی سیویر چرچ کو مسجد میں بدلنے کو لے کر دنیا بھر کر تاریخ دانوں میں بھی بحث چل پڑی ہے۔ زیادہ تر تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ آیا صوفیہ کی طرح استنبول کے ہولی سیویر چرچ کو مسجد میں بدلنا ترکی کے لئے آسان نہیں ہوگا۔.

Recommended