"موجودہ وقت میں دارا شکوہ کی تعلیمات و فلسفے کو سمجھنا نہایت ضروری : ڈاکٹر تقی عابدی"
"مدھیہ پردیش اردو اکادمی کے زیر اہتمام دارا شکوہ پر بین الاقوامی ویبینار کا انعقاد"
مدھیہ پردیش اردو اکادمی محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام بتاریخ 9 جون 2021 کو صبح 11 بجے "دارا شکوہ :ہندوستانی مشترکہ تہذیب و ثقافت کے علمبردار" کے موضوع پر بین الاقوامی ویبینار کا انعقاد کیا گیا. اس ویبینار کا افتتاح وزیر ثقافت محترمہ اوشا ٹھاکر کے خطبے سے ہوا. انھوں نے اپنے خطاب میں ویبینار کے موضوع کو وقت کی ضرورت بتاتے ہوئے اکادمی کی کوششوں کی تعریف کی. انھوں نے کہا کہ دارا شکوہ نے شریمد بھاگود گیتا کا اور 52 اپنیشدوں کا "سر اکبر" نام سے فارسی میں ترجمہ کیا تھا. سمدر سنگم نام سے انھوں نے سنسکرت میں بھی تخلیقات کیں. ویبینار کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے کہا کہ دارا شکوہ کی شخصیت اور تخلیقی صلاحیت ہندوستانی مشترکہ تہذیب اور اعلیٰ قدروں کی پاسداری کے لیے وقف شدہ تھا.. انھوں نے اسلامی تعلیم کے ساتھ ویدوں اور اپنیشدوں کا عمیق مطالعہ کیا. انھوں نے اپنیشدوں اور بھگوَد گیتا کا فارسی میں ترجمہ کرکے اور دیگر کئی تخلیقات کے ذریعے ہندوستانی فلسفے کو بیرون ممالک میں پہنچایا. ان کی کثیر ادبی تصانیف کا اردو میں بھی ترجمہ ہوا ہے لیکن ابھی اس سمت میں اور بہت کام ہونا ہے. اس جانب نئی نسل کو خصوصاً ریسرچ اسکالرز کو متوجہ کرنے کے لیے اردو اکادمی کے ذریعے اس ویبینار کا انعقاد کیا گیا ہے.
ویبینار کی صدارت کناڈا سے معروف ادیب، محقق و ناقد ڈاکٹر تقی عابدی نے کی. انھوں نے کہا کہ سرزمین ہندوستان کو یہ فخر حاصل ہوا ہے کہ یہاں دارا شکوہ جیسا عظیم مفکر و فلسفی پیدا ہوا۔ درا شکوہ وہ شخصیت ہے جس نے ایک دروازہ کھولا ہے ہمارے لیے کہ ہم دوسرے مذاہب کو سمجھ سکیں. دارا شکوہ نے اپنی تصنیف مجمع البحرین میں تصوف اور بھکتی جو دو دھارائیں ہیں ان کو ملانے کا کام کیا ہے. دارا شکوہ کو پوری طرح سے سمجھا نہیں گیا. وہ ایسے صوفی تھے جنہوں نے مختلف مذاہب کے درمیان اتحاد و اخوت کی شمع روشن کی۔ اس موقع پر انھوں نے نئی نسل کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان نسل اور ریسرچ اسکالرز کو چاہیے کہ وہ دارا شکوہ کی تعلیمات کو سمجھیں اور ان کے کام کو آگے بڑھائیں۔ مدھیہ پردیش اردو اکادمی مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے دارا شکوہ پر پروگرام کیا اور میں چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر نصرت مہدی نے جو سنگ اٹھایا ہے مدھیہ پریش اردو اکادمی اسے محراب عشق پر سجائے تاکہ دنیا اس سے استفادہ کر سکے۔
ویبینار کے مہمان خصوصی ڈاکٹر نریش نے دارا شکوہ کی ہمہ گیر شخصیت خصوصاً صوفی ازم، ویدانتوں اور اسلام کے حوالے سے اپنا مقالہ پیش کیا. جے این یو، دلی سے پروفیسر سید اختر حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ مغلیہ دور کے بادشاہوں کو "دا گریٹ مغلس" کہا جاتا تھا لیکن دارا شکوہ کو ہندوستان کی سماجی، تہذیبی اور ادبی وراثت کو سمجھنے، محفوظ کرنے اور سنبھالنے کی وجہ سے صحیح معنوں میں 'دا گریٹ مغل' کہا جاسکتا ہے. اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر انھیں د گریٹ مغل کی جگہ عظیم مفکر اور فلسفی کے طور پر یاد کیا جائے تو زیادہ مناسب ہے.
اندور کے مقرر ڈاکٹر عزیز عرفان نے کہا کہ صحیح طور پر دیکھا جائے دارا شکوہ کی حکومت اورنگزیب سے کی حکومت سے کئی گنا بہتر ہوتی لیکن افسوس ایسا نہیں ہو پایا. پھر بھی یہ کیا کم ہے کہ دارا شکوہ کی حکومت آج بھی ہمارے دلوں پہ قائم ہے.
بھوپال سے ڈاکٹر مہتاب عالم نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ دارا شکوہ ہندوستانی تہذیب کے سچے خدمت گار تھے. لیکن ان کی شخصیت اور تخلیقی صلاحیتوں پر بات ہونے کے بجائے ماضی سے اب تک مغلیہ دور کی جنگوں پر زیادہ گفتگو ہوتی رہی ہے. انھوں نے مدھیہ پردیش اردو اکادمی ،محکمہ ثقافت کے اس با مقصد پروگرام کو زیادہ اہم اور بامعنی بنانے کے لیے مدھیہ پردیش حکومت سے مانگ کی کہ دارا شکوہ کی شخصیت اور ان کے تخلیقی کام کو نصاب کا حصہ بنایا جائے.
ویبینار کے آخر میں اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے سبھی کا شکریہ ادا کیا. پروگرام کی نظامت کے فرائض بھوپال کے ابھرتے ہوئے شاعر عامر خان نے بحسن خوبی انجام دیے.
بہ شکریہ رضوان الدین فاروقی بھوپال