محمد طاہر ندوی
امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر جھارکھنڈ
مسلم دشمنی کی آگ ایسی لگی جس نے مسلم مجاہدین آزادی کے کارناموں ، قربانیوں اور داستانوں کو تاریخ کے صفحات ، اسکول اور کالجوں کے نصابات سے لے کر عجائب گھروں اور لوگوں کے ذہن و دماغ تک سے جلا کر خاکستر کر دیا ہے۔ بہادر شاہ ظفر جیسے جنگ آزادی کے پہلے پیشوا ، حق گوئی و بیباکی کی آواز ، اردو صحافت کے مشہور صحافی مولوی باقر ، تحریک ریشمی رومال کے بانی مولانا محمود الحسن ، مولانا فضل حق خیرآبادی ، جنرل بخت خاں اور مولانا حسرت موہانی کی قربانیوں اور قید و بند کی صعوبتوں کا تحریک آزادی میں کس قدر اہم رول رہا ہے لیکن تعصب کے پجاریوں نے اور تاریخ کے دشمنوں نے ایسا گندہ کھیل کھیلا ہے کہ آج ان کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے بجائے تاریخ کے اوراق سے ان کے روشن اور تابناک کردار کو مٹا کر ایک مخصوص طبقہ کو تحریک آزادی کا اصل ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔
ابھی دنیا مسلم مجاہدین آزادی کے دو چار ناموں سے ہی واقف ہے جب کہ گمنام مجاہدین جن سے دنیا ابھی واقف نہیں ہے یا واقف ہونا نہیں چاہتی ان کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ تاریخ کے گرد و غبار نے ان کے کارناموں اور داستانوں پر ڈیرہ ڈال رکھا ہے لیکن وقتاً فوقتاً جب جب ہوا کا تیور بدلتا ہے اور گرد و غبار کے بادل چھٹتے ہیں ان کی داستانیں اور کارنامے روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتے ہیں انہیں گمنام مجاہدین میں سے ایک " تصدق احمد خان " ہیں جس نے معاشرے میں موجود سماجی نا انصافی اور توہمات کے خلاف آواز اٹھائی۔ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج انتظامیہ کے انگریز نواز موقف کی مخالفت کی۔ جس کی وجہ سے کالج سے بے دخل کئے گئے۔ 1921 میں پہلی مرتبہ گرفتار کئے گئے۔ جسے پانچ بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا آج یہ تحریک آزادی ہند کی تاریخ میں گمنام ہیں۔
گرد و غبار سے اٹے ہوئے تاریخ آزادی ہند کے دوسرے صفحہ پر " ملا عبد الباسط" کا نام لکھا تھا ۔ وہ مجاہد تھا ، قلم کا شہسوار تھا ، " صحیفہ " نامی میگزین کا بانی اور " خادم " نامی اردو اخبار کا موجد تھا، وہ ہندوستانی قومی تحریک کی حمایت میں مسلسل لکھنے والا اور سامراجی طاقت کے خلاف آواز بلند کرنے والا ایک سچا محب وطن تھا لیکن افسوس ان کی تمام محنتوں اور قربانیوں پر گرد و غبار کے گہرے پردے پڑ گئے اور تاریخ کے دشمنوں نے ایک محب وطن کو ان کی قربانیوں سمیت دفن کر دیا۔
ذرا گرد و غبار کو صاف کیجئے آپ کو ایک گمنام مجاہد آزادی " سید شاہ قادری بیابانی " نظر آئیں گے۔ جو ڈاکٹر ذاکر حسین کی وطن پرستی سے متاثر ہو کر ہندوستانی قومی تحریک کی طرف راغب ہوئے۔ جس کو ڈاکٹر بابو راجندر پرساد جیسے قومی رہنماؤں سے ملاقات کے سبب گرفتار کیا گیا اور جس نے اس وقت انگریزوں کے زر خرید غلام بننے سے صاف انکار کیا جبکہ بہت سے لوگ اپنے ضمیر کا سودا کر رہے تھے لیکن گمنامی نے ان کو بھی اپنی چپیٹ میں لے کر انہیں بھی گمنام بنا دیا۔
تاریخ کی اس بوسیدہ کتاب کو ذرا احتیاط سے پلٹئے آپ کو اردو کا ایک انقلابی شاعر نظر آئے گا جسے زمانے کے گرد و پیش نے " مخدوم محی الدین" کے نام سے یاد رکھا ہے ۔ جس نے اپنی روح پرور شاعری کے ذریعے نوجوانوں کو برطانوی حکومت کے خلاف متحرک کرتے ہوئے کہا تھا کہ
قسم ہے خون سے سینچے ہوئے رنگیں گلستاں کی
قسم ہے خون دہقاں کی قسم خون شہیداں کی
یہ ممکن ہے کہ دنیا کے سمندر خشک ہو جائیں
یہ ممکن ہے کہ دریا بہتے بہتے تھک کے سو جائیں
جلانا چھوڑ دیں دوزخ کے انگارے یہ ممکن ہے
روانی ترک کر دیں برق کے دھارے یہ ممکن ہے
زمین پاک اب ناپاکیوں کو ڈھو نہیں سکتی
وطن کی شمع آزادی کبھی گل ہو نہیں سکتی
شمع آزادی تو روشن رہی لیکن ان کی قربانیوں کی شمع گل کر دی گئی تاکہ شمع آزادی کی کوئی اور شمع ان کی انقلاب آفریں نظم سے روشن نہ ہو جائے۔ مخدوم محی الدین نے اس چمن کی آبیاری اور اس گلستاں کی ہریالی کے لئے دنیا سے رخصت ہو گئے اور آج تحریک آزادی ہند کی تاریخ ان کی قربانیوں کے بارے میں اسی طرح خاموش ہے جس طرح کہ مرحوم نے کہا تھا کہ " تم گلستاں سے گئے ہو تو گلستاں چپ ہے "۔
تاریخ کے اوراق کو پلٹتے جائیے آپ کو تحریک آزادی کی ایک متحرک رکن " باجی جمال النساء " نظر آئیں گی۔ آپ کو " وئکم محمد بشیر " جیسے گاندھی وادی اصولوں پر چلنے والے لوگ نظر آئیں گے۔ عباس طیب جی جیسے لوگ ملیں گے جسے " چھوٹا گاندھی " کہا جاتا تھا۔ جس کی قیادت میں عدم تعاون ، غیر ملکی اشیاء کا بائیکاٹ اور شراب مخالف جیسی تحریکیں شروع ہوئیں۔ اور جس کو گاندھی جی نے " نمک ستیا گرہ " کا رہنما مقرر کیا تھا۔ یہ سبھی وہ گمنام مجاہدین آزادی ہیں جنہیں تاریخ کے معماروں نے زیر زمیں دفن کر دیا اور ہمیشہ ہمیش کے لئے ان کی قربانیوں ، داستانوں اور کارناموں پر گرد و غبار کے گہرے پردے ڈال دئے۔
’’کبھی تاریخ کے اوراق کو دیکھا پلٹ کر جو
تمہارا نام شامل تھا حقیقی پاسبانوں میں‘‘