سائنس اور تکنالوجی کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج)؛ ارضیاتی سائنس کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج)؛ وزیر اعظم کا دفتر، عملہ، عوامی شکایات، پنشن، ایٹمی توانائی اور خلاء کے وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے آج ہائیڈروجن سینسنگ اور تجزیاتی تکنالوجی کی اندرونِ ملک ترقی کے لیے مہاراشٹر کے ایک ہائیڈروجن اسٹارٹ اپ کو 3.29 کروڑ روپئے کے بقدر کی مالی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ ہائیڈروجن اسٹارٹ اپ کے لیے مالی امداد وزیر اعظم نریندر مودی کے قومی ہائیڈروجن مشن (این ایچ ایم) کی اس تصوریت سے ہم آہنگ جس کا گذشتہ برس بھارت کے 75ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے اعلان کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ قومی ہائیڈروجن مشن (این ایچ ایم) کا مقصد اپنے موسمیاتی اہداف کو پورا کرنے اور بھارت کو سبز ہائیڈروجن ہب بنانے میں حکومت کو مدد فراہم کرنا ہے۔ وزیر موصوف نے کہا کہ اس سے 2030 تک 50 لاکھ ٹن ہائیڈروجن پیداوار کے ہدف کو پورا کرنے اور قابل احیاء توانائی صلاحیت سے متعلق ترقی میں مدد حاصل ہوگی۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے دیسی طور پر ہائیڈروجن سینسر کی تیاری کی حمایت کرنے کے لیے ڈی ایس ٹی کے تحت تکنالوجی ترقی بورڈ اور میسرز ملٹی نینو سینس ٹکنالوجی پرائیویٹ لمیٹڈ، مہاراشٹر کے درمیان مفاہمتی عرضداشت پر دستخط کی کاروائی کی صدارت کی۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ یہ کمپنی نئے دور کی ایپلی کیشنوں کے لیے ایک دیسی جدید ترین ہائیڈروجن تجزیاتی سینسر تیار کر رہی ہے۔ یہ ترقی کسی بھی طرح کے رِساؤ کا پتہ لگانے اور /یا ہائیڈروجن کے تجزیہ کے لیے آفاقی چھوٹی کور سینسر ڈیزائن سے متعلق ہے۔ اس کے لیے پیٹنٹ کرایا گیا ہائیڈروجن گیس سینسر اور اینالائزر ایک ایسے کور سینسر پر مبنی ہےجسے پوری طرح سے بھارت میں ترقی دی گئی ہے اور تیار کیا گیا ہے۔ وزیر موصوف نے بتایا کہ فی الحال اس سینسر کے لیے درآمدات پر بہت زیادہ انحصار ہے کیونکہ ایسے کور سینسر کے پرزے چین، امریکہ، برطانیہ، جاپان اور جرمنی سے درآمد کیے جاتے ہیں۔
ان سینسروں کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ دیگر آتش گیر یا کم ہونے والی گیسوں سے کسی بھی طرح کی راست مداخلت کا سامنا نہیں کرتے ہیں اور ہوا کے ساتھ ساتھ اِنرٹ/ویکیوم بیک گراؤنڈ میں بھی کام کر سکتے ہیں اور ایک پی پی ایم سے 100 فیصد خالص ہائیڈروجن تک تجزیہ کر سکتے ہیں۔ اس تکنالوجی کے ساتھ، بھارت اندرونِ ملک تیار اپنی مصنوعات کے توسط سے گھریلو مطالبات کو پورا کرنے کے لیے عالمی منڈی میں آسانی سے داخل ہو سکتا ہے۔ اس سینسر میں کم از کم پہچان: پارٹس فی ملین (پی پی ایم) رینج؛ زیادہ سے زیادہ پہچان: 100 فیصد خالص ہائیڈروجن؛ 3 سیکنڈ کے اندر فوری ردعمل ؛ کور سینسر آپریشن کے لیے کم بجلی کی کھپت۔ پورٹیبل ڈٹیکٹر ایک مرتبہ چارج کرنے پر مسلسل 36 گھنٹے تک کام کر سکتے ہیں اور نان-کوروسیو ہونے کے ساتھ ہی ان کی 5 برس طویل زندگی بھی ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ توانائی کے مطالبے میں اضافہ رونما ہو رہا ہے اور موجودہ وسائل کی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے متبادل ایندھن کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائیڈروجن موجودہ حجری ایندھن کی جگہ مستقبل کا ایندھن ہونے کا تصورپیش کرتا ہے ، اور اس لیے قابل احیاء توانائی سے بجلی کا استعمال کرکے ایسے ہائیڈروجن ایندھن پیدا کرنا، جسے سبز ہائیڈروجن کہا جاتا ہے، اب ماحولیاتی اعتبار سے ملک کی پائیدار توانائی سلامتی کے لیے اہم ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ وزیر موصوف نے کہا کہ نیتی آیوگ کی’سبز ہائیڈرون کو بروئے کار لانا: بھارت میں کاربن میں زبردست تخفیف کے مواقع‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ کے مطابق ہائیڈروجن ایک سبز ہائیڈروجن معیشت کے عروج میں تیزی لانے کے لیے رہنمائی فراہم کرے گا، جو سال 2070 تک بھارت کے لیے اپنی خالص صفر اولوالعزمی کو حاصل کرنے کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔
تکنالوجی ترقی بورڈ (ٹی ڈی بی) کے سکریٹری جناب راجیش کمار پاٹھک، آئی پی اینڈ ٹی اے ایف ایس نے کہا، ’’ سی او پی 26 سربراہ ملاقات، گلاسگو میں محترم وزیر اعظم نے کہا تھا کہ 2070 تک خالص صفر اخراج کے ہدف کو متبادل توانائی وسائل کو فروغ دے کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہائیڈروجن ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے استعمال کے دوران تحفظ و سلامتی سمیت دیسی ایکو نظام کی ترقی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سمت میں ایک شروعاتی قدم کے طور پر تکنالوجی ترقی بورڈ ہائیڈروجن رِساؤ کا پتہ لگانے اور نظام کے تحفظ وسلامتی میں اضافہ کرنے کے لیے جدید ترین رِساؤ ڈٹیکشن سینسر کی ترقی اور تیاری کے لیے اسٹارٹ اپ ’میسرز ملٹی نینو سینس‘‘‘ کو مدد فراہم کر رہا ہے۔