کشمیر میں زعفران کی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے، جموں و کشمیر حکومت نے جی آئی ٹیگنگ کو متعارف کرانے سمیت نئے اقدامات شروع کیے ہیں۔ جی آئی سائن ان مصنوعات پر استعمال کیا جاتا ہے جن کی ایک مخصوص جغرافیائی اصلیت ہے اور ان کی خصوصیات یا ساکھ ہے جو اس اصل کی وجہ سے ہے۔زعفران کے کاشتکار پرامید ہیں کہ اب یہاں کاشت ہونے والے زعفران کو جی آئی ٹیگ متعارف کرائے جانے کے بعد انہیں اپنی پیداوار کی بہتر قیمت ملے گی۔
کشمیری زعفران سطح سمندر سے 1,600 میٹر سے 1,800 میٹر کی بلندی پر اگایا جاتا ہے، جو اس کی انفرادیت میں اضافہ کرتا ہے اور اسے دنیا بھر میں دستیاب زعفران کی دیگر اقسام سے ممتاز بناتاہے۔زعفران کی کاشت جموں اور کشمیر کے کیریواس (ہائی لینڈز) میں کی جاتی ہے اور اسے جیوگرافیکل انڈیکیشن رجسٹری نے جیوگرافیکل انڈیکیشن (جی آئی)ٹیگ تفویض کیا ہے۔ یہ نایاب مسالا جموں و کشمیر کے پلوامہ، بڈگام، کشتواڑ اور سری نگر کے علاقوں میں اگایا جاتا ہے۔ایران دنیا میں زعفران کا سب سے بڑا پیدا کرنے والا ملک ہے اور ہندوستان اس کا قریبی حریف ہے۔
تاہم، کشمیر زعفران کے جی آئی ٹیگ کے ساتھ، ہندوستان واحد زعفران پیدا کرنے والا ملک بن گیا ہے جس کے لیے جی آئی کو تفویض کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں برآمدی منڈی میں زیادہ اہمیت حاصل ہوگی اور اس سے برآمدات کو فروغ ملے گا اور ساتھ ہی کسانوں کو معاشی استحکام کے لیے بہترین منافع بخش قیمت حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ جی آئی سرٹیفیکیشن زعفران کی مروجہ ملاوٹ کو بھی روک دے گا اور کشمیر میں پیدا ہونے کی آڑ میں دوسرے ممالک میں کاشت کیے جانے والے زعفران کی مارکیٹنگ کو ختم کر دے گا جو بصورت دیگر اس فصل سے وابستہ کسانوں کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچا رہا تھا۔
کشمیری زعفران کی منفرد شناخت کو برقرار رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے محکمہ زراعت کے ایک افسر نے کہا کہ کشمیر کو دنیا کے بہترین زعفران کی پیداوار کا اعزاز حاصل ہے، اس لیے اس سنہری مسالے کو محفوظ رکھنا ہماری انفرادی/اجتماعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ نہ صرف زعفران کی کاشت سے براہ راست وابستہ خاندانوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بھی فائدے مند ہے اور ضروری ہے۔