Urdu News

پاکستان کے کراچی میں ہندوؤں کے مکانات اور ہنومان مندر منہدم

پاکستان کے کراچی میں ہندوؤں کے مکانات اور ہنومان مندر منہدم

پاکستان کے کراچی میں ہندوؤں کے مکانات اور ہنومان مندر منہدم
جس وقت ادھر ترکی کے استنبول میں چورا چرچ کو مسجد میں تبدیل کیا گیا اسی وقت پاکستان کے کراچی کے نزدیک لیاری نام کے مقام پر ایک ہنومان مندر کو منہدم کر دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق آس پاس موجود کچھ ہندوؤں کے مکانات بھی منہدم کئے گئے ہیں۔ ہنومان مندر کے نزدیک واقع تقریباً بیس ہندو خاندان متاثر ہوئے ہیں، جن کے مکانات گرا دئے گئے ہیں۔ آس پاس مقیم ہندوؤں نے جب احتجاج کیا اور وہ موقعہ واردات پہ پہنچ کے اپنا پر زور مظاہرہ کیا تب لوکل ایڈ منسٹریشن کے کانوں پر جوں رینگی۔ آس پاس کے ہندوؤں کے احتجاج کے بعد پولیس نے تحقیقات شروع کی ہیں اور اس علاقے کو سیل کر دیا ہے۔
پاکستانی اخبار ایکس پریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق لیاری کے اسسٹنٹ کمشنر عبد الکریم میمن نے اس بلڈر کے خلاف جانچ کا حکم دیا ہے جس نے اس ہنومان مندر کو منہدم کیا۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس بلڈر نے ہنومان مندر کے آس پاس کی کچھ زمینیں خریدی تھیں تاکہ وہ ایک رہائشی کالونی تعمیر کر سکے۔ اسی نے پاس کے ہنومان مندر کو بھی منہدم کر دیا۔ ابتدا میں اس بلڈر نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہنومان مندر کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ لیکن بعد میں کورونا کے زمانے مین جب لاک ڈاؤن لاگا تھا اسی وقت اس نے نہ صرف آس پاس کے ہندوؤں کے مکانات منہدم کئے بلکہ اس نے ہنومان مندر کو بھی زمین دوز کر دیا۔ ایک مقامی باشندہ محمد ارشاد بلوچ نے اخبار ایکس پریس ٹریبیون سے کہا کہ کسی عبادت گاہ کو گرانا گناہ ہے۔ یہ نا انصافی ہے۔ یہ ایک پرانا ہنومان مندر تھا۔ ہم اپنے بچپن سے اس مندر کو دیکھتے آئے تھے۔
ایک اور مقامی باشندہ ہرش کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن میں کوئی بھی اس ہنومان مندر میں پوجا کے لئے نہیں جا رہا تھا۔ بلڈر نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھایا۔ اس نے ہمارے ہنومان مندر کو اس وقت منہدم کر دیا جب کہ ہم پوجا کے لئے نہیں جا رہے تھے۔ ہرش اور ان جیسے دوسرے مقامی افراد نے ہنومان مندر کو اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کرنے کی مانگ کی ہے۔ موہن لال نام کے ایک ہندو سماجی کارکن نے الزامات آید کئے ہیں کہ اس بلڈر نے ان تمام لوگوں کو دھمکی دی ہے جو اس مقام پر مندر کے انہدام کے بعد جمع ہو گئے تھے۔ موہن لال نے اخباری رپورٹر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ ہنومان مندر میں داخل ہونا چاہتے تھے لیکن بلڈر نے انھیں مندر کے اندر داخل نہیں ہونے دیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جنوبی دپٹی کمشنر ارشاد احمد سودھر نے بتایا کی اس علاقے میں پہلے دو مندر تھے، لیکن ایک مندر پہلے ہی منہدم کیا جا چکا ہے۔ ڈپٹی کمشنر ارشاد احمد سودھر نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس معاملے میں انصاف کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ اس معاملے کی جانچ کے لئے ایک کمیٹی بنائی جا رہی ہے۔ اس کمیٹی میں ایک ماہر آثار قدیمہ کو بھی رکھا جائے گا۔ یہ کمیٹی صرف سات دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ اور یہ کوشش ہے کہ سبھی کو انصاف مل سکے۔
پاکستان ایک ایک کر کے اپنے ہندو وراثت سے چھٹکارا پاتا جا رہا ہے۔ ہندوؤں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ اغوا کئے جانے اور تبدیلیئ مذہب کے خوف سے ہندو کچھ مخصوص علاقوں میں سمٹتے جا رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو آبادی لگاتار کم ہوتی جا رہی ہے۔ 1947میں پاکستان کا قیام عمل میں آنے کے بعد رفتہ رفتہ اس علاقے سے ہندو، جین اور بدھ وراثت کی نشانیوں کو مٹانے کی ایک منظم کوشش ہوتی رہی ہے۔ ہندو عبادت گاہوں کا انہدام اور تبدیلی مذہب پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر مہینے کہیں نہ کہیں سے یہ خبر آتی ہے کہ کسی مندر کو یا تو منہدم کر دیا گیا یا پھر اسے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ ابھی گزشتہ جون کا واقعہ تازہ ہے جب وزیر اعظم عمران خان نے اپنے آپ کو سیکولر ثابت کرنے کے لئے اسلام آباد میں ایک کرشن مندر کی تعمیر کے لئے فنڈ ریلیز کیا۔ لیکن پھر ساری دنیا مے دیکھا کہ چند روز میں اسلام آباد کی اس زیر تعمیر کرشن مندر کی دیواریں گرا دی گئیں۔ اس درمیان کہیں کہیں سے کچھ خوش کرنے والی خبریں بھی موصول ہوتی رہتی ہیں۔ سیالکوٹ مین ایک مندر کے دروازے 72 سال بعد وزیر اعظم عمران خان کی کوششوں سے کھل سکے۔ لیکن اس طرح کے واقعات بہت کم ہیں۔ جبکہ پورے ملک میں مندروں کی تعداد لگاتار کم ہوتی جا رہی ہے۔ چار سو سے مندر اب مشکل سے درجن بھر بچے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے میں پاکستان اپنے نئے دوست ترکی کی راہ پر چل پڑا ہے۔ یعنی دوسرے مذاہب کے عبادت گاہوں کو مسجد میں تبدیل کر دیا جائے۔ لیکن 73سالہ پاکستان کے لئے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ پانچ ہزار سال پرانی نشانیوں کو پوری طرح ختم کر دے۔.

Recommended