Urdu News

عالمی یوم خواتین پر خاص: ہندوستان کی جنگ آزادی میں خواتین کا رول

ایسی خواتین کی فہرست کافی طویل ہے جنھوں نے مادر وطن کی آزادی کے لئے اپنے جان مال کی قربانی دی

 عالمی یوم خواتین پر خاص: ہندوستان کی جنگ آزادی میں خواتین کا رول 

ہندوستانی خواتین اور جنگ آزادی 
 
آزادی ایک بہت ہی خوبصورت جذبے کا نام ہے۔ اُس خوبصورت جذبے کا نام ہے جو انسان کو جان سے زیادہ پیارا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ ملے خشک روٹی جو آزاد  رہ کر، تو ہے غلامی کے حلوے سے بڑھ کر۔ دنیا کی ہر زندہ قوم نے آزادی کو ایک نعمت قرار دیا ہے۔ ہمارا ملک ہندوستان بھی انگریزوں کی غلامی کی زنجیرمیں جکڑا رہا۔ غلامی کی اس زنجیر کو توڑنے کے لئے اس ملک کے مرد و خواتین نے ایک ساتھ اپنی قربانیاں پیش کیں۔ ہمارا ملک جو جنت نظیر ہے، اس جنت کے حصول کے لئے ہمارے بزرگوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔
 جھانسی کی رانی لکشمی بائی آج بھی ہندوستانی عوام کے دلوں میں بہادری، دلیری اور شجاعت کا استعارہ بن کے زندہ ہے۔ 1857کی پہلی جنگ آزادی میں بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ان کی بیگم زینت محل پر بھی انگریزوں کا عتاب نازل ہوا۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ انھیں بھی جلاوطن کیا گیا۔ جولائی 1886میں رنگون میں ہی ان کا انتقال ہوا اور اپنے شوہر بہادر شاہ ظفر کے مزار کے برابر میں دفن ہوئیں۔ رانی لکشمی بائی اور بیگم زینت محل کی طرح ہی اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی بیگم حضرت محل بھی 1857کی پہلی جنگ آزادی میں ایک ناقابل فراموش کردار ہیں۔ جب اَوَدھ کے نواب واجد علی شاہ کو جلا وطن کرکے انگریزوں نے کلکتہ بھیج دیا تو لکھنؤ میں بیگم حضرت محل نے فوج کی کمان سنبھال لی۔ اُڑا دیوی اور راجہ جئے لعل سنگھ کی مدد سے بیگم حضرت محل نے انگریزوں سے اودھ کو آزاد کرا لیا۔ وہ جس بہادری اور شجاعت سے میدان جنگ میں اپنی فوج کی سربراہی کر رہی تھیں وہ اس زمانے میں ناقابل یقین واقعہ تھا۔ انگریزوں کی سازش اور اپنوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب بیگم حضرت محل کو بعد میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 
ہم جب کبھی ہندوستان کی جنگ آزادی کی بات کرتے ہیں تو 1857سے 1947تک کی 90سالہ تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔ کچھ مورخین نے جنگ آزادی کی تاریخ 1757کی پلاسی کی جنگ سے شروع کی ہے۔ جب بنگال کے مرشد آباد میں ہگلی ندی کے کنارے پلاسی کے میدان میں لارڈ کلائیو نے سراج الدولہ کو شکست دی تھی۔انگریزوں نے ہندوستانی قوم پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ ظلم کی انتہاؤں سے 1857کا انقلاب رونما ہوا۔ اسی لئے زیادہ تر مورخین جنگ آزادی کی تاریخ 1857سے شروع کرتے ہیں۔ 
1857کی پہلی جنگ آزادی سے 15اگست 1947تک کی تاریخ جد وجہد اور قربانیوں سے عبارت ہے۔ قابل فخر اور قابل اطمنان بات یہ ہے کہ تاریخ کی اس کتاب میں کوئی باب خواتین کی قربانیوں سے خالی نہیں ہے۔ ایک اور بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جنگیں بھی لڑی گئیں اور تحریکیں بھی چلتی رہیں۔ 90برسوں کے اس طویل عرصے میں کئی اہم موڑ آئے۔ اس میں جلیاں والا باغ بھی ہے اور کاکوری کا مشہور واقعہ بھی۔ اس میں ڈانڈی مارچ، عدم تعاون کی تحریک، چوری چورا حادثہ، سائمن کمیشن کا بائکاٹ اور انگریزوں بھارت چھوڑو تحریک جیسے کئی اہم موڑ ہیں۔ لیکن ہر موڑ پہ خواتین ضرور نظر آتی ہیں۔ کہیں تو خواتین خود گھوڑے پر سوار ہو کر میدان جنگ میں لڑتی ہیں اور کہیں تحریک کو سمت و رفتار عطا کرنے میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا استعمال کرتی ہیں۔ کچھ خواتین قلم کی طاقت کا سہارا لیتی ہیں۔ 
1915میں گاندھی جی ساؤتھ افریقہ سے ہندوستان واپس آئے اور تحریک آزادی کی لَو کو تیز کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کے نتیجے میں ہوم رُول کی باتیں ہوئیں اور 1920میں  عدم تعاون کی تحریک شروع ہوئی۔ اس زمانے میں نہ صرف مہاتما گاندھی کی شریک زندگی کستوربہ نے ان کا ساتھ دیا بلکہ سرلا دیوی، موتھو لکشمی، سوشیلا نائر، راجکماری امرت کور،سچیتا کرپلانی اور ارونا آصف علی جیسی خواتین نے ہر قدم پہ گاندھی جی کا ساتھ دیا۔ اور عدم تعاون کی تحریک کو گاؤں گاؤں تک پہنچانے کے لئے خواتین کی منڈلی تیا ر کی۔ 1930میں ڈانڈی مارچ اور نمک ستیاگرہ کے بعد انگریزوں نے زیادہ تر سیاسی رہنماؤں کو قید کر لیا۔ لیکن نہ صرف شہروں میں بلکہ قصبات اور گاؤں میں بھی خواتین نے مورچہ سنبھال لیا۔      
     تحریک آزادی کے تمام اہم مراحل پہ جب ممتاز ہندوستانی رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا تو خواتین نے آگے بڑھ کر مورچہ سنبھالا۔ ایسی خواتین کی فہرست کافی طویل ہے جنھوں نے مادر وطن کی آزادی کے لئے اپنے جان مال کی قربانی دی۔ جنگ آزادی میں ہمارے ملک کی ہزاروں خواتین نے بڑی بہادری اور دلیری سے حصہ لیا۔مقام افسوس ہے کہ جھانسی کی رانی لکشمی بائی، بیگم حضرت محل، سروجنی نائڈو، کستوربہ، وجئے لکشمی پنڈت، ارونا آصف علی اور سچیتا کرپلانی جیسی کچھ خواتین کا نام ہی ہمارے سامنے آتا ہے۔ ضرورت اس بات کہ ہے کہ ہم ان تمام خواتین کی قربانیوں کو یاد کریں اور نئی نسل کو ان کی بے مثال قربانیوں سے آگاہ کراتے رہیں۔ 
کِتور رانی چینما، بیگم رویکا، جھلکاری بائی، اُوما بائی کُنڈا پور، ساوتری بائی پھولے، بی اماں، کیپٹن لکشمی سہگل، مُو ل متی، رفیقہ بیگم، جانکی اتھی ناہپن، امّو سوامی ناتھن، متنگینی ہاجرا، نیلی سین گپتا، محمدی بیگم،  اور رانی گائڈنلو، جیسی خواتین کا ذکر بہت کم ہوا ہے۔ لیکن ان خواتین کی قربانیاں سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل تھیں۔ تاریخ جنگ آزادی کے ہر صفحے پر خواتین کے کارنامے رقم ہیں۔ کچھ ناموں پہ دھول کی ایک پرت جم گئی ہے۔ کچھ ہماری بے حسی اور کچھ وقت کی ستم ظریفی کی ا ن خو اتین کے ناموں کو بھی بھلا دیا گیا جنھوں نے اپنی پوری زندگی مادر وطن کی خدمت میں لگا دی تھی۔ مادر وطن پہ اپنی زندگی نثار کرنے والی خواتین کو یاد کرنا ہمارا فرض ہے۔ 
 
(کالم نگار ڈاکٹر شفیع ایوب،جے این یو، نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں) 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Recommended