<h3 style="text-align: center;">کریمہ بلوچ کی موت، ٹورونٹو پولیس نے ابتدائی تحقیقات میں قتل کے شبہ کوخارج کر دیا</h3>
<h5 style="text-align: center;">Karima Baloch's death, Toronto police have ruled out a preliminary investigation into the murder</h5>
<p style="text-align: right;">ٹورنٹو،24دسمبر(انڈیا نیرٹیو)</p>
<p style="text-align: right;">سماجی کارکن اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی کینیڈا کے شہر ٹورونٹو میں اچانک موت کے کیس میں پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے بعد کہا ہے کہ کریمہ بلوچ کی موت جن حالات میں ہوئی اس سے متعلق تحقیقاتی افسران کو کسی قسم کی گڑبڑ کا شبہ نہیں ہے۔</p>
<h4 style="text-align: right;">دوستوں کا انکشاف ،کریمہ کو مل رہی تھیں دھمکیاں</h4>
<p style="text-align: right;">دوسری جانب پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بڑی تعداد میں لوگ انھیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ادھران کے دوستوں اورساتھیوں نے انکشاف کیاہے کہ انہیں مسلسل جان سے مارنے کی دھمکیاںمل رہی تھیں۔</p>
<h4 style="text-align: right;">ٹورنٹوسن کی رپورٹ کے مطابق</h4>
<p style="text-align: right;">ٹورنٹوسن کی رپورٹ کے مطابق کریمہ کے دوست لطیف جوہر بلوچ نے بتایاکہ کریمہ کو مسلسل جان سے مارے جانے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں جن میں کہا جارہا تھا کہ ہمیں پتہ ہے کہ تم کہاں رہتی ہو۔</p>
<h4 style="text-align: right;">لطیف جوہر نے بتایا کہ ہم اس بات پر یقین نہیں</h4>
<p style="text-align: right;">لطیف جوہر نے بتایا کہ ہم اس بات پر یقین نہیں کرپارہے ہیں اور قبول نہیں کرپارہے ہیں کہ یہ ایک حادثہ تھا۔دوسری جانب ٹورونٹو پولیس نے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں لکھا ’ٹورونٹو پولیس سروس ایک لاپتہ شخص کی تفتیش میں کمیونٹی اور میڈیا کی دلچسپی سے آگاہ ہے۔</p>
<p style="text-align: right;">حالات کی چھان بین کی گئی ہے اور افسران نے اس کو غیر مجرمانہ موت قرار دیا ہے اور کسی گڑبڑ کا شبہ نہیں ہے۔ ہم نے فیملی کو آگاہ کر دیا ہے۔‘ٹورنٹو پولیس کے مطابق کریمہ بلوچ 20 دسمبر کو لاپتہ ہوئی تھیں۔</p>
<p style="text-align: right;"> ان کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ان کے شوہر حمل حیدر بلوچ نے پولیس کو دی جب کہ 21 دسمبر کو ان کی لاش پانی سے برآمد ہوئی۔واضح رہے کہ کریمہ بلوچ کا تعلق پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع تربت سے تھا</p>
<p style="text-align: right;"> اور جان کو لاحق خطرات کے باعث انھوں نے کینیڈا میں سیاسی پناہ حاصل کر لی تھی۔ اس کے بعد وہ کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ میں اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں بلوچستان کے مسائل اجاگر کرتی رہیں۔</p>.