Urdu News

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے: آل انڈیا پیام انسانیت فورم

آل انڈیا پیام انسانیت فورم

محمد طاہر ندوی

امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر جھارکھنڈ

دلوں کو جوڑنا ، بے سہاروں کو سہارا دینا ، دکھوں کا مداوا کرنا ، انسانوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا معاملہ کرنا ، انسانیت کا درد رکھنا اور آپسی بھائی چارے کو فروغ دینا یہی پیام انسانیت کا پیغام ہے ۔

بات 1974کی ہے۔ خدا کی نگری ( الٰہ آباد)  میں ایک مردِ مومن اور انسانیت کا سچا درد رکھنے والے مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ جنہیں لوگ پیار و محبت سے ( علی میاں ) بھی کہتے تھے ، نے خدا کے بندوں تک خدا و رسول کا صحیح پیغام پہنچانے ، انسانوں کو انسانیت کا درس دینے ، انسانیت کی بنا پر پریم ، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینے اور مسلم سماج کے تعلق سے جو غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں انہیں دور کرنے کے لیے" آل انڈیا پیام انسانیت فورم " یعنی اکھل بھارتیہ مانوتا سندیش  نامی ایک ابھیان کی بنیاد ڈالی اور دیکھتے ہی دیکھتے  مانوتا کا یہ سندیش " ملک کے گوشے گوشے میں پھیلنے لگا ۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے توحیدِ خالص کو اپنی دعوت کا مرکز بنانے کے بجائے انسانیت کی خدمت، ان کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی اور ان کے دکھ درد میں شرکت کو دعوت کا " کامن پوائنٹ" بنایا کیونکہ آپ یہ جانتے تھے کہ جس ملک میں آپ رہ رہے ہیں وہاں دعوتِ توحید کو " کامن پوائنٹ " نہیں بنایا جاسکتا اس لئے کہ اس ملک میں اکثریت اہلِ شرک کی ہے اور جن کی شرک و کفر کی حالت " جتنے کنکر اتنے شنکر " جیسی ہے لہذا حضرت مولانا نے انسانیت ہی کو اپنے دعوت کا مرکز بنا کر اس کی داغ بیل ڈال دی۔

انسانیت کا پیغام ایک ایسا عنوان ہے جس کے ذریعے آپ لوگوں کے دل و دماغ تک پہنچ سکتے ہیں ، دلوں میں پریم کا دیا جلا سکتے ہیں اور ایسا دروازہ ہے جس کے ذریعے آپ اندرون خانہ کا جائزہ اور معائنہ کر سکتے ہیں ۔ 1974میں جو کام شروع ہوا تھا الحمدللہ آج پورے ملک میں پھیل گیا ہے۔ ہمارے شہر جمشید پور میں بھی یہ کام 2013سے چل رہا ہے گزشتہ دن یعنی 8/ اگست بروز پیر صبح دس بجے ایم جی ایم ہاسپیٹل میں اسی نسبت سے مریضوں کی عیادت کا ایک پروگرام رکھا گیا تھا جس کا آغاز ڈاکٹر وجئے کمار اور جناب امر ناتھ سر جی کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ پیام انسانیت کے مقامی ذمہ دار مولانا شمیم احمد ندوی ، نوجوان و متحرک کارکن جناب عبد الرشید صاحب کے صاحب زادے عبد الرحمٰن بھائی، ارشد بھائی،  مشہور سماجی کارکن خالد اقبال صاحب اور نوجوان عالم دین شاہ نواز ندوی کے علاوہ دیگر اراکین بھی موجود تھے ۔

 پیام انسانیت فورم جمشیدپور کے ایک اہم رکن ، نوجوان عالم دین سید زاہد حسین ندوی نے میڈیا کے سامنے پیام انسانیت فورم کی اہمیت و افادیت ، ضرورت اور مقصدیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ فورم ایجوکیشن اور سوشل فیلڈ میں کام کرتی ہے۔ ہم 2013سے شہر جمشید پور میں یہ کام کرتے آئے ہیں۔ شہر کے ہاسپیٹل جیسے ایم جی ایم اور ساکچی کے اولڈ ایج ہوم میں مریضوں کی عیادت کرتے ہیں، ان کے درمیان پھلوں کی تقسیم کرتے ہیں اور حتی المقدور ان کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا پیغام یہ ہے کہ ہماری گنگا جمنی تہذیب، بھائی چارہ، آپس کا پریم محبت دوبارہ سے لوٹ آئے، آزادی سے قبل جس طرح ہم اس ملک میں پیار و محبت سے ایک ساتھ رہتے تھے اسی طرح دوبارہ ہم پیار و محبت، اتحاد و اتفاق، آپسی بھائی چارہ اور خیر خواہی کے ساتھ رہنے والے بن جائیں یہی پیام انسانیت کا پیغام ہے۔

 انسانیت کی خدمت کرنا تمام انبیاء علیہم السلام کی زندگی کا مقصد رہا ہے اور اسی سلسلے کی آخری کڑی پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو انسانیت کے سب سے بڑے محسن و خیر خواہ ہیں ان کی ایک حدیث ہے " خیر الناس من ینفع الناس" سب سے بہتر انسان وہ ہے جس سے انسانیت کو فایدہ پہونچے۔

پیام انسانیت ایک ایسا دروازہ ہے جو کھلا ہوا ہے اور جس کے ذریعے آپ بآسانی لوگوں کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کر سکتے ہیں اس تعلق سے حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب بھی کسی قوم میں دعوت کا کام کرنا ہو تو پہلے ان کی نفسیات کا مطالعہ کرو اور کوشش کرو کہ جو دروازہ کھلا ہوا ہے اسی سے داخل ہوا جائے اگر زبردستی دروازہ کھلوایا یا توڑوایا تو تمہاری حیثیت چور اور ڈاکو کی ہوگی پھر تمہاری کوئی بات نہیں سنی جائے گی البتہ اگر تم اجازت لے کر آئے یا کھلے دروازے سے آئے تو لوگ تمہارا اعزاز کریں گے اور تمہاری بات بھی سنی جائے گی چاہے وہ بات فوری طور پر کسی کی سمجھ میں نہ آئے۔

پیام انسانیت وقت کا ایک اہم ترین تقاضا ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس تحریک کو ملک کے شہروں سے لے کر قصبات اور قصبات سے لے کر دیہات تک پھیلانے کی کوشش کریں تاکہ مانوتا کا سندیش گھر گھر پہونچے اور دلوں میں پیار و محبت ، ہمدردی و خیر خواہی اور آپسی بھائی چارہ کا بول بالا ہو۔

ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

Recommended