<h3 style="text-align: center;">پاکستان خلیج کو چھوڑ کر چین کا منھ تک رہا ہے</h3>
<p style="text-align: center;">Pakistan has left the Gulf and gone to China</p>
<p style="text-align: right;">جب ماہ اگست میں سعودی عرب نے اپنا 3بلین ڈالر قرضہ واپس مانگا تو سعودی عرب کے اس مطالبہ پر پاکستان کے ایوان اقتدار میں حیرت و استعجاب کی لہر دوڑ گئی۔</p>
<p style="text-align: right;">پاکستان نے آؤدیکھا نا تاؤمعاملہ ٹھنڈا کرنے اور کشید گی دور کرنے کے لیے آناً فاناً اپنے موجودہ فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض روانہ کر دیا۔</p>
<p style="text-align: right;"> لیکن ان کا یہ دورہ ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا ۔کیوں کہ سعودی حکام اپنے قرضہ کی واپسی پر مصر رہے۔سعودی عرب نے قرضہ کی واپسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ</p>
<h4 style="text-align: right;">پاکستان کو اس نے 3.2بلین ڈالر کا تیل ادھار خریدنے یا باالفاظ دیگر قرض حسنہ کی جو سہولت دی تھی اس پر عمل آوری بھی روک دی۔</h4>
<p style="text-align: right;">دراصل کشمیر معاملہ پر جس میں پاکستان کا ہندستان سے تنازعہ ہے، تنظیم اسلامی کانفرنس کی جانب سے اجلاس بلانے سے انکار پر پاکستان کے وزیر خارجہ کی سعودی عرب پر تنقید اور دھمکی کے فوراً بعد سعودی عرب نے یہ قدم اٹھایا تھا۔</p>
<p style="text-align: right;">اس واقعہ نے جنوب ایشیا۔مشرق وسطیٰ رشتوں میں تیزی سے اس تبدیلی کو اجاگر کر دیاجس میں متعدد خلیجی ممالک نے جو پہلے عادت کے مطابق مسلم اکثریتی ملک</p>
<p style="text-align: right;">پاکستان کی حمایت کرتے رہتے تھے اس کا ساتھ دینے کے بجائے ہندستان کے ساتھ اپنے تجارتی و اقصادی تعلقات کو ترجیح دی۔</p>
<p style="text-align: right;"> اس صورت حال نے پاکستان کو چین کے قریب، جس نے سعودی عرب کے قرضہ کے ایک حصہ کی ادائیگی کے لیے رقم مہیاکی تھی ، ڈھکیلنا شروع کر دیا ۔</p>
<h4 style="text-align: right;">پاکستان نے قرض واپسی کی دوسری قسط کے طور پر ایک بلین ڈالر اور ادا کر دیے۔ جو اسے چین سے ہی ملے تھے۔</h4>
<p style="text-align: right;">یہ بات قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب نے قرض واپسی کامطالبہ ایسے وقت میں کیا جب پاکستان معاشی و مالی طور پر نہایت خستہ حال ہے۔</p>
<p style="text-align: right;"> متحدہ عرب مارات نے،جو پاکستان کے لیے غیر ملکی ترسیل زر کا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ ہے، حال ہی میں پاکستانی ورکروں کے لیے ورک ویزا پر اپابندی لگا دی۔</p>
<p style="text-align: right;">یوں کہنے کو تو یہ کہاگیا کہ کوویڈ19-کے باعث یہ پابندی لگائی گئی ہے لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندستان پر،جہاں کہ کوویڈ کے کیسز کی تعداد پاکستان کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے پابندی نہیں لگائی گئی۔</p>
<p style="text-align: right;">پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا حالیہ دورہ یو اے ای بے سود رہا اور وہ پابندی ہٹوانے میں ناکام رہے جس سے پاکستان شدید طور پر مایوس ہوا۔</p>
<h4 style="text-align: right;">اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گوشوارے کے مطابق نومبر 2020میں پاکستانیوں نے متحدہ عرب امارات سے 519.5ملین ڈالر پاکستان منتقل کیے تھے۔</h4>
<p style="text-align: right;">اسی مہینے میں پاکستانیوں نے سعودی عرب سے 615.1ملین ڈالر بھیجے۔ بیرون ملک سے رقومات اور زر مبادلہ کی ترسیل کے دو بڑے ذرائع کے ساتھ پاکستان کے بگڑتے رشتے پہلے ہی سے اس کی بیمار معیشت کے لیے زہر ہلا ہل ہیں۔</p>
<p style="text-align: right;">اگرچہ پاکستان نے سعودی قرضہ کی لازمی ادائیگی کر دی اس کا چین پر بڑھتا انحصار اس امر کا مظہرہے کہ یہ پاکستان کے لیے نہ صرف اہم ہے بلکہ مالی ضرورت کے وقت پاکستان کو دستیاب واحد متبادل بھی ہے۔</p>
<h4 style="text-align: right;">لیکن خلیجی ممالک سے تعلقات میں تلخی آجانے کا واحد سبب کشمیر ہی نہیں ہے ۔</h4>
<p style="text-align: right;">پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں اعتراف کیا تھا کہ ان پر دوست ممالک کا دباؤتھا کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ سفارتی رشتے قائم کرے۔</p>
<p style="text-align: right;"> دوری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ سوائے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے کوئی اور ایسا دوست ملک نہیں ہے جو پاکستان پر اس قسم کا دباؤڈال سکے۔</p>
<p style="text-align: right;">اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے متحدہ عرب امارات کی تقلید کرنے سے پاکستان کے انکار نے مبینہ طور پر پاکستانی ورک ویزوں پر پابندی عائد کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔</p>
<h4 style="text-align: right;"> پاکستان کی خلیجی ممالک کے ساتھ زبردست کشیدگی خود اس کی بدلتی خارجہ پالیسی کی عکاس ہے جسے خلیجی ممالک کے حریفوں ترکی اور ایران کےساتھ آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر بڑھتے تعلقات کی روشنی میں دیکھا جا رہا ہے۔</h4>
<p style="text-align: right;">سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی طرح وزیر اعظم عمران خان سعودی شاہی خاندان سے برہ راست ذاتی تعلقات نہیںہیں اور نہ ہی تیل سے مالا مال ملک میں کوئی ذاتی تجارتی حصہ داری ہے۔اس کے بجائے خان کی ترکوں سے زیادہ چھن رہی ہے۔</p>
<p style="text-align: right;"> ذرائع کا کہنا ہے کہ خان کو ترک تاریخ اور ثقافت پڑھنے کا بہت شوق ہے اور وہ ترک ٹی وی ڈرامے دیکھنے کے لیے سرعام پاکستانی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔</p>
<p style="text-align: right;">خان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ جدید ترکی کے بانی مصطفےٰ کمال کے ،جنہوں نے پہلی جنگ عظیم میں کھنڈر بن جانے والے ترکی کی دوبارہ تعمیر کی تھی، مداح ہیں۔</p>
<p style="text-align: right;">جنوری2019میں خان کے دورہ ترکی کے دوران عمران خان نے کمال اتاترک کے مقبرے پر خصوصی طور پر حاضری دی تھی اور ”20ویں صدر کے عظیم ترین دانشوروں اور بصیرت کے حامل رہنماؤں میں سے ایک ۔غازی مصطفےٰ کمال اتاترک “ کہتے ہوئے گل پوشی کی تھی۔</p>
<h4 style="text-align: right;"> خان حکومت کا ترکی کی جانب جھکاؤان کی حالیہ خارجہ پالیسی ترجیحات کی ،جس میں 2021میں استنبول،تہران اور اسلام آباد کے درمیان غیر فعال ریل سروس بحال کرنا شامل ہے،عکاسی کرتا ہے۔</h4>
<p style="text-align: right;">توقع ہے کہ آئی ٹی آئی ٹرانزیشنل ریل روڈ چین اور ترکی کے درمیان براستہ ایران راست ریل رابطہ سے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پراجکٹ ہوتے ہوئے رابطہ اور بڑھ جائے گا۔</p>
<p style="text-align: right;">چین پہلے ہی ایران میں اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کرنے کا عہد کر چکاہے ۔ دریں اثنا چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) ، جس کا مقصد چین کی براستہ ایران اور ترکی یورپ تک رسائی کے لیے پاکستان کو ٹرانزٹ روٹ میں بدلنا ہے،شاید پاکستان میں چل رہا واحد کثیر ارب ڈالر پراجکٹ ہے۔</p>
<p style="text-align: right;">چین اور یورپی یونین کے درمیان حال ہی میں ایک نئے سرمایہ کاری معاہدے پر اتفاق ہوجانے سے سی پیک نے مشرق مغرب راستے کو جوڑنے میں نئی اہمیت حاصل کر لی ہے۔</p>
<h4 style="text-align: right;">چوں کہ چین کی نئی شاہراہ ریشم کو یورپ تک پہنچانے میں پاکستان پہلا تصوراتی رابطہ ہے اس لیے منطقی طور پر پاکستان کو اس راستے کے درمیان میں آنے والے ممالک سے تعلقات استوار کرنا ہی ہوں گے۔ اور ایران او ر ترکی راستے میں آتے ہیں۔</h4>
<p style="text-align: right;">یہ نام نہاد عمران خان پہلو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں نمایاں ہے جو رفتہ رفتہ خلیجی ممالک سے رو گردانی کر رہا ہے۔ دسمبر میں پاکستان نے ایران کے ساتھ دو طرفہ تجارت کی سہولت کے لیے نئی سرحدی کراسنگ کھولی تھی۔</p>
<p style="text-align: right;"> ایران کے ساتھ وسیع تجارتی تعلقات ایک ایسے وقت میں قائم ہوئے ہیں جب فرزاد بی گیس پراجکٹ سمیت کئی اہم پراجکٹوں سے ہندوستان کو نکال دینے کے فیصلہ کی وجہ سے ایران ہندستان میں تعلقات میں تیزی سے کھٹاس آگئی ۔</p>
<h4 style="text-align: right;">ہندستان کے ساتھ ایران کی بڑھتی کشیدگی کے باعث ایران نے چین کے ذریعہ جدید بنائی گئی گوادار بندرگاہ کو ایران کے چا بہار بندرگاہ سے سیدھا ملادینے کا مشورہ دیا۔</h4>
<p style="text-align: right;">اگرچہ پاکستان ایران اور ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کر رہا ہے سعودی عرب اور یو اے ای نے ایک نازک اقتصادی موقع پر پاکستان کے دو بڑے ذرائع ترسیل زر پر واضح دباؤڈال رکھا ہے ۔</p>
<h4 style="text-align: right;">اب پاکستان کم ا زکم ایک حقیقی آزاد اور شاید زیادہ دور اندیشانہ خارجہ پالیسی وضع کرنے کا اہل ہو جائے۔</h4>.