Urdu News

اگنو میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کے سانحہ ارتحال پر تعزیتی نشست

تصویر میں بائیں سے: ڈاکٹر لیاقت علی، ڈاکٹر شاکر صدیقی، ڈاکٹر احمد علی جوہر اور ڈاکٹر قدسیہ نصیر

اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی میں ڈسپلن آف اردو کے زیر اہتمام اردو زبان و ادب کے معروف ادیب پروفیسر گوپی چند نارنگ کے سانحہ ارتحال پر ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ ڈسپلن آف اردو کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر لیاقت علی نے اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ اردو زبان و ادب میں غیر معمولی شخصیت  کے مالک تھے۔ تحقیق و تنقید اور لسانیات کے میدان میں انہوں نے انتہائی اہم خدمات انجام دی ہیں۔ جسمانی طور پر بھلے ہی ان کا انتقال ہوگیا لیکن وہ اپنی غیر معمولی تحریروں کی بدولت ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ڈسپلن آف اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر احمد علی جوہر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کا سانحہ ارتحال اردو زبان و ادب کا غیر معمولی خسارہ ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ اردو زبان و ادب کے ممتاز دانشور تھے۔ انہوں نے اردو شاعری اور فکشن کی تنقید کو اپنی تحریروں سے انتہائی بلندی پر پہنچایا اور معیار و وقار عطا کیا۔ ان کی تنقیدی اور تحقیقی تحریریں ان کی بالغ نظری، نکتہ رسی اور غیرمعمولی ذہانت کا بین ثبوت ہیں۔

ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات، ادب کا بدلتا منظر نامہ، ادبی تنقید اور اسلوبیات، امیر خسرو کا ہندی کلام، سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ، اردو افسانہ، روایت اور مسائل، ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں، ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری، ترقی پسندی،جدیدیت، مابعد جدیدیت، جدیدیت کے بعد، ولی دکنی تصوف انسانیت اور محبت کا شاعر، انیس اور دبیر، بیسویں صدی میں اردو ادب، فراق گورکھپوری، اطلاقی تنقید، سجاد ظہیر، اردو کی نئی بستیاں، اقبال کا فن،فکشن شعریات، کاغذ آتش زدہ، تپش نامہء تمنا، جدید ادبی تھیوری، غالب معنی آفرینی جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات ان کی انتہائی اہم کتابیں ہیں جن پر اردو زبان و ادب کو فخر ہے۔ اردو حلقوں میں وہ سفیر اردو کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کی غیر معمولی ادبی خدمات کے اعتراف میں بہت سے اعزازات و انعامات کے ساتھ انتہائی اہم اعزاز پدم بھوشن سے نوازا گیا۔ ان کے وقیع ادبی کارناموں کی بدولت ان کا نام تاریخ ادب اردو میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا ہے۔ ڈسپلن آف اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شاکر علی صدیقی نے تعزیتی نشست میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی رحلت ہم تمام اردو والوں کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

گوپی چند نارنگ جیسی غیر معمولی شخصیت روز روز جنم نہیں لیتی۔ انہوں نے اردو زبان و ادب کے میدان میں وقیع خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی چند کتابیں جیسے ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات، فکشن کی تنقید اور اردو غزل اور ہندوستانی ذہن تہذیب وغیرہ معرکہ کی کتابیں ہیں۔ تنقید و تحقیق کے ساتھ لسانیات کے میدان میں بھی انہوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ وہ اپنے ادبی کارناموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد کئے جاتے رہیں گے۔ ڈسپلن آف اردو کی کنسلٹنٹ ڈاکٹر قدسیہ نصیر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ اردو زبان کے معروف ادیب، نقاد اور ماہر لسانیات تھے۔ ان کی تحریروں میں دانشوری جھلکتی ہے۔ انہوں نے تنقید و تحقیق کو بلند معیار عطا کیا۔ ان کی کتابیں اردو زبان و ادب کا گراں قدر اثاثہ ہیں۔ ان کے انتقال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اردو والوں کے سر سے ایک گھنا سایہ ختم ہوگیا۔ تعزیتی نشست کے اختتام پہ ان کی روح کو سکون پہنچانے کے لیے سکوت اختیار کیا گیا.

 ڈکٹر دھرم ویر نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک نابغہ روزگار ہستی تھے۔ ایسی علمی ادبی ہستیاں روز روز پیدا نہیں ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر قدسیہ نصیر نے کہا کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ادب، تنقید، اور تنقیدی تھیوری کے حوالے سے بہت اہم کام کئے ہیں لیکن ان کا ایک بڑا کارنامہ لسانیات کے میدان میں بھی ہے۔ انھوں نے غیر اردو داں طبقہ کو اردو سکھانے کے لئے بنیادی کتابیں تیار کیں، اور املا کے مسائل پر بہت سنجیدگی سے کام کیا ہے۔ ڈاکٹر عبد الحفیظ نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کو گنگا جمنی تہذیب کا پروردہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نارنگ صاحب زندگی بھر اردو کے ہندوستانی تہذیبی رشتوں کی تلاش میں لگے رہے۔ وہ نقاد کے ساتھ ساتھ ایک بہترین محقق بھی تھے۔

Recommended