پٹنہ، 2 اپریل(انڈیا نیرٹیو)
راجدھانی پٹنہ کا مسلم اکثریتی علاقہ سبزی باغ ان دنوں رمضان المبارک کی آمد سے گل گلزار ہے۔ مختلف انواع اقسام کی دکانیں سج دھج کر تیار ہیں، شام ہوتے ہی سبزی باغ کی رونق بڑھ جاتی ہے، مگر سبزی باغ میں ان دنوں گلابی چائے یعنی شیر چائے کی دھوم ہے، ویسے شہر میں مختلف مقامات پر شیر چائے کا اسٹال لگا ہوا ہے مگر پٹنہ میں شیر چائے کا مرکز سبزی باغ ہی ہے۔ یہاں روزانہ چار سے پانچ ہزار کپ چائے آسانی سے لوگوں کے لبوں تک پہنچ جاتی ہے۔
ایک کپ کی قیمت پندرہ روپے ہے ، اس حساب سے ایک دن میں 75 ہزار روپے کی چائے فروخت ہوتی ہے اور ایک مہینہ کے رمضان میں شیر چائے کا 22 لاکھ پچاس ہزار کا کاروبار صرف سبزی باغ میں ہوجاتا ہے۔ کہا جاتا ہے پٹنہ میں شیر چائے کا آغاز 1962 سے ہوا تھا، اس کے بعد سے یہ سلسلہ جاری ہے۔
شیر چائے تیار کرنے میں 7 سے 8 گھنٹے کا وقت لگتا ہے، اس چائے میں کشمیری پتی اور کئی طرح کے خشک میوہ جات کا استعمال ہوتا ہے تب جاکر یہ ذائقہ دار چائے بن کر تیار ہوتا ہے۔ اسے پینے کے لیے شہر کے دور دراز و دوسرے اضلاع تک سے لوگ سبزی باغ پہنچتے ہیں اور شیر چائے سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اسے پینے کے لیے صرف روزہ دار ہی نہیں بلکہ سبھی مذاہب کے لوگ سبزی باغ پہنچتے ہیں۔
شیر چائے کی دکانوں پر افطار کے بعد سے ہی بھیڑ لگنی شروع ہو جاتی ہے، جو دیر رات تک رہتی ہے۔ کیا ہندو اور کیا مسلمان ، شیر چائے کی دکان پر سب کھڑے ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے اور چائے پیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
سبزی باغ سے متصل پٹنہ مارکیٹ، کھیتان مارکیٹ، ہتھوا مارکیٹ ہونے کی وجہ سے یہاں لوگوں کی بھیڑ امڈ پڑتی ہے، سامان کی خریداری کرنے والا بغیر شیر چائے سے لطف اندوز ہوئے بغیر واپس نہیں جاتا۔
سال کے بارہ مہینے میں صرف ایک مہینہ رمضان المبارک کے موقع پر شیر چائے ملتی ہے، اس لیے چائے کے شائقین اس مہینے کا خاص طور سے انتظار کرتے ہیں، بزرگ ہو یا نوجوان، خواتین ہو یا دوسرے مذاہب کے لوگ، سبھی اس ذائقہ دار سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
چائے کی فروخت سے دکاندار بھی خوش نظر آتے ہیں۔ شیر چائے کی شہرت اب بیرون ریاست تک پہنچ چکی ہے، باہر بھی اس چائے کی نقالی کی جاتی ہے مگر جو شیر چائے پٹنہ کے سبزی باغ میں موجود ہے اس کا کوئی جواب نہیں۔