Urdu News

اَمیر خسرواور کبیر کی راہوں پہ چلنا ہوگا سماج کو

Sant Kabeer Das

 اَمیر خسرواور کبیر کی راہوں پہ چلنا ہوگا سماج کو  

امیر خسرو اور کبیر کی راہوں پہ چلنا آج وقت کی ضرورت 
ڈاکٹر شفیع ایوب 
 
امیر خسرو فارسی زبان کے عظیم مصنف اور شاعر تھے، لیکن اردو زبان کی ابتدا کی تاریخ امیر خسرو کے ذکر کے بغیر نا مکمل ہے۔امیر خسرو کا عہد خلجیوں اور تغلقوں کا عہد تھا۔امیر خسرو تیرہویں صدی عیسوی میں پٹیالی، ضلع ایٹہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد امیر سیف الدین محمود نسلی اعتبار سے ترک تھے جبکہ خسرو کی والدہ ہندوستانی تھیں۔ اس ترک ہندی تربیت پر امیر خسرو کو ناز تھا۔ اسی لئے وہ خود کو ”ترکِ ہندی“ کہا کرتے تھے۔ انھوں نے ایک لمبی اور فعال زندگی بسر کی۔ امیر خسرو نے کئی بادشاہوں کی سلطنت اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ خاندان خلجی کے بانی جلال الدین فیروز خلجی نے جب حکومت سنبھالی تو اپنے دربار میں شعراء کو مدعو کیا۔ ان شعراء میں خسرو بھی تھے۔ جلال الدین فیروز خلجی نے ہی خسرو کو ”امیر“ کا لقب دیا۔ امیر خسرو دلّی سلطنت کے سات بادشاہوں کے دربار سے وابستہ رہے۔ 
ان کی کئی تخلیقات ملتی ہیں جو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ایران میں بھی قابل احترام سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی تخلیقات میں ہندوستان کی بولیوں، پھولوں، پھلوں، موسموں اور تیوہاروں کا خوب ذکر ملتا ہے۔ اردو  زبان و ادب کی تاریخ لکھنے والے رام بابو سکسینہ نے امیر خسرو کے زمانہ کو اردو کی نمود کے واسطے صبح کاذب کہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ زبان اردو کی ترقی کا ابتدائی زمانہ بہت دھندلا نظر آتا ہے مگر اس دھندلکے میں اردو کا جو پہلا شاعر صاف طور پر نمایاں نظر آتا ہے وہ حضرت امیر خسرو دہلوی ہیں۔ ان کی گونا گوں خصوصیات کی بنا پر ہی انھیں ”طوطی ہند“ کے لقب سے نوازا گیا۔ اردو میں پہلی غزل امیر خسرو ہی کی طرف منسوب ہے۔ ان کے عہد میں ہی ان کا کلام زبان زد خاص و عام ہوا۔ آج ہندوستان کی جس گنگا جمنی تہذیب پر ہم فخر کرتے ہیں اسے بنانے اور سنوارنے والوں میں سر فہرست نام حضرت امیر خسرو کا ہے۔ 
 وہ مشہور صوفی محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیا کے مرید و محبوب خاص تھے۔ امیر خسرو اپنے پیر و مرشد حضرت نظام الدین اولیا سے اتنی محبت و عقیدت رکھتے تھے کہ جب پیر و مرشد کے انتقال کا حال سنا تو اسی غم میں چند روز کے بعد  ۵۳۳۱؁ء میں سفر آخرت اختیار کیا۔ اسی مناسبت سے ان کا یہ شعر مشہور ہے :
گوری سووے سیج پر، اور مکھ پر ڈارے کیس 
چل خسرو ؔ گھر آپنے، رین بھئی سب دیس 
حضرت امیر خسرو کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں، وہ بیک وقت فارسی کے اعلیٰ درجے کے شاعر و مصنف، زبان ہندوی کے شاعر، اپنے زمانے کے مشہور موسیقار، کئی سازوں اور راگوں کے موجد، اور ایک صوفی کی شناخت رکھتے ہیں۔ ان کے نام سے ایک نظم ”خالق باری“بھی ملتی ہے جس کے متعلق ناقدین ادب میں اختلاف ہے۔ کچھ علمائے ادب ”خالق باری“ کو امیر خسرو کی تصنیف نہیں مانتے۔ پروفیسر سید احتشام حسین کا خیال ہے کہ ”خالق باری“ امیر خسرو کی ہی تصنیف ہے لیکن جو خالق باری ہم کو آج دستیاب ہوتی ہے اس میں بہت سا حصہ بعد میں دوسروں نے اضافہ کر دیا ہے۔ حضرت امیر خسرو کو ہندوستان میں صنف قوالی کا موجد بھی تصور کیا جاتا ہے۔عربی، فارسی، ترکی اور ہندی موسیقی کو ملا کر انھوں نے قوالی کی بنا ڈالی تھی۔ اسی قوالی نے بعد ازاں بزرگوں کے آستانے پر پرورش پائی اور مقبولیت کی بلندی پر پہنچی۔  
جہاں تک فن موسیقی کا سوال ہے تو وہ نہ صرف اس فن میں کامل تھے بلکہ اپنی طرف سے بھی انھوں نے اسے بہت کچھ دیا ہے۔ وہ امیروں میں سب سے بڑے امیر اور فقیروں میں سب سے بڑے فقیر تھے۔ ایک طرف راج درباروں تک ان کی رسائی تھی تو دوسری طرف وہ عوام کے بالکل قریب تھے۔اسی لئے فارسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے عوامی زبان میں بھی بہت کچھ لکھا ہے۔آج بھی ہندوستان میں کہیں بھی قوال جب اپنی قوالی کو اعتبار عطا کرنا چاہتا ہے تو کلام خسرو سے ان مصروعوں کا انتخاب کرتا ہے: 
زحال  مسکیں  مکن  تغافل  دورائے  نینا  بنائے  بتیاں 
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ کاہے لیہو لگائے چھتیاں 
دوسری طرف امیر خسرو کے انتقال کے تقریباً ایک سو بیس برس بعد بنارس میں کبیر داس پیدا ہوئے۔ کبیر اپنے زمانے کے بڑے انقلابی تھے۔ ایک شاعر کے طور پر ہم انھیں جانتے ہیں اور نصابی کتابوں میں ان کے دوہے پڑھتے ہیں۔ جن دوہوں میں وہ ہندو مسلمان دونوں کو ڈانٹ پلاتے نظر آتے ہیں۔ کبیر نے اپنے زمانے میں مذہبی دکھاوے کو جس انداز میں نشانہ بنایا ہے وہ انھی کا کمال اور حوصلہ تھا۔کبیر کے لکھے ساکھی، سبد اور رمینی پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ انسانیت کو سب سے بڑا مذہب گردانتے ہیں۔کبیر نے استاد یعنی گرو کی تعظیم پر زور دیا ہے۔ کبیر نے بتایا کہ ایشور، بھگوان ہمارے اندر ہی ہے، اسے تلاش کرنے کہیں بہت دور جنگلوں اور پہاڑوں میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کبیر داس نہ ہندو تھے نہ مسلمان، وہ ایک مصلح قوم صوفی سنت تھے۔ جنھوں نے اپنی ساری زندگی لوگوں کو یہ سمجھانے میں لگا دی کہ تم جس کی تلاش میں در در بھٹکتے ہو وہ دراصل تمہارے اندر ہی موجود ہے۔ 
آج جب ہمارے ملک میں نفرت کرنے اور نفرت پھیلانے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے تو ہمیں امیر خسرو اور کبیر داس کو یادکرنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے۔ خسرو اور کبیر کی تعلیمات کسی ایک قوم، کسی ایک مذہب کے لئے نہیں ہیں، بلکہ وہ انسانیت کے لئے ہیں۔ ہماری جو مشترکہ تہذیب ہے، جو ساجھی وراثت ہے اس پہ آنچ آ رہی ہے۔ اس لئے نئی نسل کو ایک بار پھر بھرپور ڈھنگ سے امیر خسرو اور کبیر داس کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ امیر خسرو دہلی کی بستی حضرت نظام الدین میں اپنے پیر و مرشد محبوب الٰہی کے قرب میں آرام فرما ہیں۔ ادھر کبیر داس ”زندگی بھر کاشی اور مرے کے بیری مگہر کے باسی“کو سچ ثابت کرتے ہوئے مشرقی اتر پردیش کے مگہر میں آرام فرما ہیں۔ ان دونوں مقامات کو نئی نسل کے لئے جاذب نظر کیسے بنایا جائے، اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔  
 
(کالم نگار، جے این یو، نئی دہلی میں تدریس سے وابستہ ہیں)    
  
 
 
 
 
   
  
 
 
 
 
 
 
 
 

Recommended