راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرسنگھ چالک ڈاکٹر موہن بھاگوت نے جمعرات کے روز ایک کتاب کی رسم اجرامیں کہا کہ امن کے متبادل کے طور پرہندوستان کی تقسیم کو چنا گیا تھا، لیکن وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تقسیم ہند کا درد اس کی منسوخی کے بعد ہی دور ہو سکتا ہے۔
سرسنگھ چالک نے آج نوئیڈاسیکٹر۔12واقع بھاوراو دیورس ودیا مندر کے آڈیٹوریم میں کرشنانند ساگر کی لکھی ہوئی کتاب ’وبھاجن کاری بھارت کے ساکشی'کا اجراکیا۔ پروگرام کی صدارت الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شمبھوناتھ سریواستو نے کی۔
تقسیم ہندپر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر بھاگوت نے کہا کہ ہندوستان اور الگ ملک حاصل کرنے والے دونوں ہی اس سے خوش نہیں ہیں۔ تقسیم کرنے والی ذہنیت آج بھی موجود ہے اور یہ اس وقت نظر آتی ہے جب ’بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے‘ جیسے نعرے لگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوچنے کی بات ہے کہ فرقہ وارانہ عداوت آج بھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اہل وطن بالخصوص مسلم سماج کو سوچنا ہوگا کہ اس سوچ سے کیسے پارپایا جائے۔ قومی تشخص اور اتحاد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
سرسنگھ چالک نے کہا کہ ملک ایک بار تقسیم ہوا ہے اور دوبارہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ملک اب 'ہنس کے لیاتھا پاکستان، لڑکے لیں گے ہندوستان' کے تصور کو برداشت نہیں کر سکتا۔ لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ 2021 کا سال ہے، 1947 کا سال نہیں۔ معاشرہ اب تقسیم کے درد اور کرب کو بھولنے والا نہیں ہے اور ٹھوکریں کھا کر اب مضبوط ہو گیا ہے۔ کوئی کوشش کرے گا تو اس کے ٹکڑے ہو جائیں گے۔
سنگھ سربراہ نے کہا کہ ہر ایک کا اپنا عبادت کاطریقہ ہے، لیکن اسے دوسروں پر تھوپنا درست نہیں ہے۔ ہندو سماج میں ہمیشہ سے کثرت میں وحدت کا احساس رہا ہے۔ سب کو مشترکہ قومیت کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے اس بیان کو دہرایا کہ مسلم کمیونٹی کو الگ تھلگ رکھنے سے ہندوتوا نامکمل رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ اب اگر کوئی تسلط کا احساس رکھے گا تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔