نئی دلّی ، 29 اگست /
میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار !
ہم سب کو پتہ ہے کہ آج میجر دھیان چند جی کی سالگرہ ہےاور ہمارا ملک ، ان کی یاد میں اس دن کو کھیلوں قومی دن کے طور پر بھی مناتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ شاید اس وقت ، میجر دھیان چند جی کی آتما ، جہاں بھی ہو گی ، بہت خوشی محسوس کرتی ہو گی ۔ پوری دنیا میں بھارت کی ہاکی کا ڈنکا بجانے کا کام دھیان چند جی کی ہاکی نے کیا تھا اور چار دہائیوں بعد ، تقریباً 41 سال بعد بھارت کے نو جوانوں نے ، بیٹے اور بیٹیوں نے ہاکی کے اندر پھر ایک بار جان ڈال دی ہے اور کتنے ہی تمغے کیوں نہ مل جائیں ، لیکن جب تک ہاکی میں تمغہ نہیں ملتا ، بھارت کا کوئی بھی شہری فتح کی خوشی حاصل نہیں کر سکتا ہے اور اس مرتبہ اولمپک میں ہاکی کا تمغہ ملا ، چار دہائیوں بعد ملا ۔ آپ تصور کر سکتے ہیں ،میجر دھیان چند جی کے دل پر ، اُن کی آتما پر ، وہ جہاں ہوں گے ،وہاں کتنی خوشی ہو گی اور دھیان چند جی کی پوری زندگی کھیل کے لئے وقف تھی اور اس لئے آج جب ہمیں ملک کے نو جوانوں میں ، ہمارے بیٹے بیٹیوں میں کھیل کے تئیں ، جو دلچسپی نظر آ رہی ہے ، ماں باپ کو بھی ، بچے اگر کھیل میں آگے جا رہے ہیں تو خوشی ہو رہی ہے ۔ یہ جو جذبہ نظر آ رہا ہے ، میں سمجھتا ہوں ، یہی میجر دھیان چند جی کے لئے بہت بڑا اظہارِ عقیدت ہے ۔
ساتھیو ،
جب کھیلوں کی بات آتی ہے تو یہ فطری بات ہے کہ پوری نوجوان نسل ہمارے سامنے نظر آتی ہے اور جب ہم نوجوان نسل کو قریب سے دیکھتے ہیں تو کتنی بڑی تبدیلی نظر آتی ہے۔ نوجوانوں کا ذہن بدل گیا ہےاور آج کا نوجوان ذہن ، پرانے طریقوں سے کچھ نیا کرنا چاہتا ہے ، ہٹ کر کرنا چاہتا ہے۔ آج کا نوجوان بنے بنائے راستوں پر نہیں چلنا چاہتا ، وہ نئے راستے بنانا چاہتا ہے۔ کسی نامعلوم مقام پر قدم رکھنا چاہتا ہے۔ منزل بھی نئی ، ہدف بھی نئے ، راستے بھی نئے اور خواہش بھی نئی ۔ ارے ، ایک بار جب دل میں ٹھان لیتا ہے نا نو جوان ، جی جان سے لگ جاتا ہے ۔ دن رات محنت کر رہا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں ، ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی بھارت نے اپنے اسپیس کے شعبے کو کھولا اور دیکھتے ہی دیکھتے نوجوان نسل نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ، کالجوں ، یونیورسٹیوں کے طلباء ، نجی شعبے میں کام کرنے والے نوجوان بڑھ چڑھ کو آگے آئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں بہت بڑی تعداد میں ایسے سیٹلائٹس ہوں گے ، جن میں ہمارے نو جوانوں ، ہمارے طلباء نے ، ہمارے کالج نے ، ہماری یونیورسٹی نے ، لیب میں کام کرنے والے طلباء نے کام کیا ہوگا۔
اسی طرح آج آپ جہاں کہیں بھی دیکھیں ، کسی بھی خاندان میں جائیں ، چاہے وہ خاندان کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو ، پڑھا لکھا خاندان لیکن اگر آپ خاندان کے نوجوان سے بات کریں تو وہ اپنے خاندان سے کیا کہتا ہے جو کہ روایات سے ہٹ کر کہتا ہے ۔ میں اسٹارٹ اپ کروں گا ، میں سٹارٹ اپ میں جاؤں گا یعنی اس کا دِل خطرہ مول لینے کے لئے بے تاب ہے۔ آج اسٹارٹ اپ کلچر چھوٹے شہروں میں بھی پھیل رہا ہے اور میں اس میں روشن مستقبل کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہمارے ملک میں کھلونوں پر بحث ہو رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے جب یہ موضوع ہمارے نوجوانوں کی توجہ میں آیا تو انہوں نے اپنے ذہن میں یہ فیصلہ بھی کر لیا کہ ہندوستان کے کھلونوں کو دنیا میں پہچان کیسے دلائی جائے اور وہ نئے تجربات کر رہے ہیں اور دنیا میں کھلونوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہے ، 6-7 لاکھ کروڑ کی مارکیٹ ہے۔ آج ہندوستان کا حصہ بہت کم ہے لیکن کھلونے کیسے بنائے جائیں ، کھلونوں کی اقسام کیا ہیں ، کھلونوں میں ٹیکنالوجی کیا ہے ، بچوں کی نفسیات کے مطابق کھلونے کیسے ہیں، آج ہمارے ملک کا نوجوان اس پر توجہ دے رہا ہے ، کچھ تعاون کرنا چاہتا ہے۔ ساتھیوں ، ایک اور بات ، جو دل کو بھی خوشی سے بھر دیتی ہے اور یقین کو بھی مضبوط کرتی ہے اور وہ کیا ہے ؟ کیا آپ نے کبھی توجہ دی ہے؟ عام طور پر ہمارے یہاں ایک عادت بن چکی ہے – ہوتی ہے ، چلو یار چلتا ہے ، لیکن میں دیکھ رہا ہوں ، میرے ملک کا نوجوان ذہن اب خود کو بہترین کی طرف مرکوز کر رہا ہے۔ بہترین کرنا چاہتا ہے ، بہترین طریقے سے کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی قوم کی ایک عظیم طاقت بن کر ابھرے گا۔
ساتھیو ،