Urdu News

گجرات کے گاندھی نگر میں ڈیجیٹل انڈیا ہفتہ 2022 میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

وزیر اعظم

 

نمستے، گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپندر بھائی پٹیل جی، مرکزی وزارت  کی کونسل کے میرےساتھی جناب اشونی ویشنو جی، جناب راجیو چندر شیکھر جی، الگ الگ ریاستوں سے جڑے ہوئے سبھی نمائندے، ڈیجیٹل انڈیا کے تمام مستفیدین، اسٹارٹ اَپس اور صنعت سے جڑے سبھی ساتھی، ماہرین تعلیم( اکیڈمیشنس) محققین، خواتین و حضرات!

آج کا یہ پروگرام 21ویں صدی میں مسلسل جدید ہوتے ہندوستان کی ایک جھلک  پیش کرتا ہے۔ ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال پوری انسانیت کے لئے کتنا انقلابی ہے، اس کی مثال ہندوستان نے ڈیجیٹل انڈیا مہم کے طورپر پوری دنیا کے سامنے رکھی ہے۔

مجھے خوشی ہے کہ آٹھ سال پہلے شروع ہوئی یہ مہم، بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ خود کو وسیع کرتا رہا ہے۔ہر سال ڈیجیٹل انڈیا مہم میں نئی بلندیاں جڑتی رہی ہیں ، نئی ٹیکنالوجی کی شمولیت ہوئی ہے۔آج کے اس پروگرام میں جو نئے پلیٹ فارم، نئے پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے وہ اسی سلسلے کو آگے بڑھا رہا ہے۔ابھی آپ نے چھوٹے چھوٹے ویڈیو میں دیکھا، مائی اسکیم ہو، بھاشنی –بھاشادان، ڈیجیٹل انڈیا، جینسس ہو، چپس ٹو اسٹارٹ اپ پروگرام ہو،  یا باقی سارے پروڈکٹ، یہ سارے ایز آف لیونگ  اور ایز آف ڈوئنگ بزنس کو استحکام دینے والے ہیں۔ خاص طور پر ان کا بڑا فائدہ ہندوستان کے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کو ہوگا۔

ساتھیوں!

وقت کے ساتھ جو ملک جدید ٹیکنالوجی کو نہیں اپناتا، وقت اسے پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتا ہے اور وہ وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے۔ تیسرے صنعتی انقلاب کے وقت ہندوستان اسے بھگت رہا ہے، لیکن آج ہم یہ فخر سے کہہ سکتےہیں کہ آج ہندوستان چوتھے صنعتی انقلاب انڈسٹری 4.0آج ہندوستان فخر سے کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان کو دنیا کو سمت دے رہا ہے اور مجھے اس بات کی دوہری خوشی ہے کہ گجرات نے اس میں بھی ایک طرح سےراستہ دکھانے کا رول ادا کررہا ہے۔

تھوڑی دیر پہلے یہاں ڈیجیٹل گورننس  کو لے کر گجرات کے گزشتہ دو دہائیوں کے تجربوں کو دکھایا گیا ہے۔گجرات ملک کی پہلی ریاست تھی، جہاں گجرات اسٹیٹ ڈاٹا سینٹر (جی ایس ڈی سی)، گجرات اسٹیٹ وائیڈ ایریا نیٹ ورک(جی ایس ڈبلیو اے این)، ای-گرام سینٹر اور اے ٹی وی ٹی؍جن سیوا کیندر جیسے ستون کھڑے کئے گئے۔

سورت ، بارڈولی کے پاس سبھاش بابو کانگریس کے صدر بنے تھے، وہاں سبھاش بابوکی یاد میں پروگرام کیاگیا اور ای- وشوگرام کا اس وقت آغاز کیا گیا تھا۔

گجرات کے تجربوں نے 2014ء کے بعد قومی سطح پر ٹیکنالوجی کو گورننس کا باقاعدہ حصہ بنانے میں بہت مدد کی ہے، شکریہ گجرات۔ یہی تجربہ ڈیجیٹل انڈیا مشن کی بنیاد بنے۔ آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو آپ کو محسوس ہوتا ہے ان 8-7 سالوں میں ڈیجیٹل انڈیا نے ہماری زندگی کتنی آسان بنادی ہے۔ 21ویں صدی میں جن کی پیدائش ہوئی ہے، جو ہماری نوجوان نسل ہے، جس کی پیدائش 21ویں صدی میں ہوئی ہے، ان کے لئے توآج ڈیجیٹل لائف بہت کول لگتی ہے۔ فیشن اسٹیٹ منٹ لگتا ہے ان کو۔

لیکن صرف 8 سے 10سال پہلے کی صورتحال کو یاد کیجئے۔ پیدائش کا سرٹیفکیٹ لینے کے لئے لائن ، بل جمع کرنا ہے تو لائن، راشن کے لئے لائن، داخلے کے لئے ، رزلٹ اور سرٹیفکیٹ کے لئے لائن، بینکوں میں لائن، اتنی ساری لائنوں کا حل ہندوستان آن لائن ہوکردیا۔ آج پیدائش کے سرٹیفکیٹ سے لے کر بزرگ شہری کی پہچان دینے والے زندگی کے سرٹیفکیٹ تک حکومت کی زیادہ تر خدمات ڈیجیٹل ہیں، ورنہ پہلے سینئر سٹیزن کو خاص کر پنشن پانے والوں کو جاکر کہنا پڑتا تھا کہ میں زندہ ہوں۔ جن کاموں کے لئے کبھی کبھی کئی دن لگ جاتے تھے ، وہ آج کچھ پل میں ہی ہوجاتے ہیں۔

ساتھیوں!

آج ڈیجیٹل گورننس کا ایک بہترین ڈھانچہ ہندوستان میں ہے۔ جن دھن- موبائل، آدھار، جی ای ایم، اس کی جو تیسری طاقت کا ملک کے غریب اور متوسط طبقے کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ اس سے جو سہولت ملی ہے اور جو شفافیت آئی ہے، اس سے ملک کے کروڑوں کنبوں کا پیسہ بچ رہا ہے۔ 8سال پہلے انٹرنیٹ ڈیٹا کے لئے جتنا پیسہ خرچ کرنا پڑتا تھا، اس سے کئی گنا کم ،یعنی ایک طرح سے نہ کے برابر۔ اس قیمت میں آج اس سے بھی بہتر ڈیٹا سہولت مل رہی ہے۔ پہلے بل بھرنے کے لئے، کہیں درخواست دینے کے لئے، ریزرویشن کے لئے، بینک سے جڑے کام ہو، ایسی ہر خدمت کے لئے دفاتر کے چکر لگانے پڑتے تھے۔ ریلوے کا ریزرویشن کرانا ہو اور گاؤں میں رہتا ہو تو بے چارہ پورا دن کھپا کر شہر جاتا تھا۔ 100 سے 150روپے بس کرایہ خرچ کرتا تھا اور پھر لائن میں لگتا تھا ریلوے میں ریزرویشن کے لئے ۔ آج وہ کامن سروس سینٹر پر جاتا ہے اور وہیں سے اس کو یہ میری کامرس سروس والی فوج دیکھتی ہے اور وہیں سے اس کا کام ہوجاتا ہے، بلکہ گاؤں میں ہی ہوجاتا ہے اور گاؤں والوں کو بھی یہ پتہ ہے کہ کہاں یہ بندوبست ہے۔اس میں بھی کرایے ، بھاڑے ، آنا جانا اور دن لگانا سبھی خرچوں میں کٹوتی آئی ہے۔ غریب  محنت مزدوری کرنے والوں کے لئے یہ بچت اور بھی بڑھی ہے، کیونکہ ان کا پورا دن بچ جاتا ہے۔

اور کبھی کبھی ہم سنتے تھے نا  ٹائم اِز منی، سننے اور کرنے میں تو اچھا لگتا ہے ، لیکن جب اس کا تجربہ سنتے ہیں تو دل کو چھو جاتا ہے۔ میں بھی کاشی گیا تھا تو  کاشی میں رات کو…. دن میں تو ادھر ادھر جاتا ہوں تو ٹریفک اور لوگوں کو پریشانی ، تو پھر میں رات کو ایک ڈیڑھ بجے ریلوے پلیٹ فارم پر چلا گیا دیکھنے کے لئے کہ بھئی کہاں کیا حال ہے۔ کیونکہ وہاں کا ایم پی ہوں تو کام تو کرنا ہے تو میں وہاں پسنجروں سے بات کررہا تھا۔ اسٹیشن ماسٹر سے بات کررہا تھا ، کیونکہ میرا اچانک دورہ تھا۔ کسی کو بتا کر تو گیا نہیں تھا، تو میں نے کہا  بھئی یہ جو وندے بھارت ٹرین چل رہی ہے تو کیا تجربہ ہے اور اس کے انتظامات کیسے لگے۔ ارے بولے صاحب اتنی اس کی مانگ ہے کہ ہمیں کم پڑ رہی ہے۔ میں نے کہا وہ تو ٹرین تھوڑی مہنگی ہے اس کی ٹکٹ زیادہ لگتی ہے۔اس  میں لوگ کیوں جاتے ہیں۔ بولے صاحب ، اس میں مزدور لوگ سب سے زیادہ جاتے ہیں، غریب لوگ سب سے زیادہ جاتے ہیں۔ میں نے کہا کیسے بھئی!میرے لئے سرپرائز تھی۔ بولے وہ دو اسباب سے جاتے ہیں۔ ایک –بولے وندے بھارت ٹرین میں جگہ اتنی ہے کہ سامان اٹھا کر لے کر جاتے ہیں تو رکھنے کی جگہ مل جاتی ہے۔ غریب کا اپنا ایک حساب ہے اور دوسرا وقت جانے میں چار گھنٹے بچ جاتا ہے تو وہاں فوراً کام پر لگا جاتا ہوں، تو 6 سے 8گھنٹے میں جو کمائی ہوتی ہے ، ٹکٹ تو اس سے بھی کم پڑ جاتا ہے۔ٹائم اِز منی، یعنی وقت ہی پیسہ ہے۔ کیسے غریب حساب لگاتا ہے، بہت پڑھے لکھے لوگوں کو اس کی سمجھ کم ہوتی ہے۔

Recommended