Urdu News

جموں و کشمیر میں زرعی شعبے کو متنوع بنانے کے لیے جدید ترین تکنیکی مداخلتوں کا استعمال

جموں و کشمیر میں زرعی شعبے کو متنوع بنانے کے لیے جدید ترین تکنیکی مداخلتوں کا استعمال

کاشتکاری کی سرگرمیوں میں خطرے کو کم کرنے کے لیے زرعی تنوع کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور جموں و کشمیر حکومت جموں و کشمیر میں زراعت کے شعبے کو متنوع بنانے کے لیے مسلسل جدید ترین تکنیکی مداخلتوں کو بروئے کار لا رہی ہے۔

کھمبی کی کاشت نہ صرف کاشتکار برادری کی زرعی آمدنی میں اضافہ کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے بلکہ اسے آب و ہوا اور مٹی کے وسائل میں بڑھتی ہوئی تبدیلیوں کے خلاف بھی محفوظ بناتی ہے۔

اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، حکومت جموں و کشمیر پورے یو ٹی میں ‘ پروموشن آف راؤنڈ دی ایئر مشروم کلٹی ویشن’ (PRYMC) پر ایک مکمل پروجیکٹ نافذ کر رہی ہے۔

جموںو کشمیر  کے محکمہ زراعت کی طرف سے اگلے تین سالوں میں تقریباً 42 کروڑ روپے کی لاگت سے لاگو کیا جانے والا پروجیکٹ کھمبیوں کی پیداوار میں 3.5 گنا اضافہ کرے گا اور یہاں مشروم کی کاشت میں انقلاب برپا کرے گا۔

اس منصوبے سے روزگار کی پیداوار میں بھی 3 گنا اضافہ ہو گا اور اس عمل میں 768 سے زائد نئے ادارے بھی بنائے جا رہے ہیں تاکہ مداخلتوں کی پائیداری کو یقینی بنایا جا سکے۔

ایڈیشنل چیف سکریٹری، محکمہ زراعت کی پیداوار، اتل ڈولو کاکہنا ہے کہ مشروم کی کاشت کاری آمدنی پیدا کرتی ہے اور غربت کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے۔ کھمبیوں کی پیداوار کاشت اور مارکیٹنگ کے شعبوں میں براہ راست اور بالواسطہ روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہے، نیز پروسیسنگ کاروبار اور محنت کش انتظام کے مواقع فراہم کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مشروم کی کاشت کے لیے بہت کم سرمایہ، تھوڑی تکنیکی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، اور چھوٹے پیمانے پر مشروم کو گھر کے اندر اگانا اور سرمایہ کاری پر باآسانی زیادہ منافع کمانا بھی ممکن ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کم سرمایہ کاری سے اپنے گھروں میں مشروم اگاسکتی ہیں اور اس کے نتیجے میں مشروم کی کاشت نہ صرف دیہی خواتین کو زیادہ طاقت دیتی ہے بلکہ غربت سے بھی لڑتی ہے۔’سال بھر مشروم کی کاشت کا فروغ’ ان 29 منصوبوں میں سے ایک ہے، جنہیں جموں وکشمیر انتظامیہ نے جموں و کشمیر  میں زراعت اور اس سے منسلک شعبوں کی ہمہ گیر ترقی کے لیےیو ٹ سطح کی اعلیٰ کمیٹی کی سفارش کے بعد منظوری دی تھی۔

 اس باوقار کمیٹی کی سربراہی ڈاکٹر منگلا رائے، سابق ڈی جی آئی سی اے آر کر رہی ہیں اور اس میں زراعت، منصوبہ بندی، شماریات اور انتظامیہ کے شعبے میں دیگر نامور شخصیات ہیں۔مشروم دیہی علاقوں میں ایک اہم کاٹیج انڈسٹری ہے۔

 یہ چھوٹے اور پسماندہ کسانوں، بے زمین مزدوروں اور خواتین کی معاشی بہتری کا باعث بنتا ہے۔ نقد فصل ہونے کے ناطے یہ   یو ٹی کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔

ڈائریکٹر ایگریکلچر اینڈ فارمرز ویلفیئر جموں، کے کے شرما نے کہا، جو اس منصوبے کو شیر کشمیر یونیورسٹی برائے  زراعت  کے ساتھ مل کر نافذ کر رہے ہیں کہا کہ پیسٹورائزڈ کمپوسٹ اور غیر منظم مارکیٹ کی دستیابی کی کمی مشروم کی پیداوار میں بڑی رکاوٹیں ہیں اور یہ منصوبہ ان کو نمایاں طریقے سے دور کرنے جا رہا ہے۔

اس منصوبے کے تحت 26 پاسچرائزڈ کمپوسٹ بنانے والے یونٹس، 10 سپون پروڈکشن لیبز اور 72 کنٹرولڈ کنڈیشنڈ کراپنگ روم (2000 بیگز کی گنجائش) تین سال کے عرصے میں قائم کیے جائیں گے۔

 غیر روایتی علاقوں میں مشروم کی کاشت کے فروغ کے لیے مشروم کے کاشتکاروں میں 1.5 لاکھ سبسڈی والے پاسچرائزڈ کمپوسٹ بیگ تقسیم کیے جائیں گے۔ 300 خواتین سیلف ہیلپ گروپس  کے قیام کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنانے کا کام شروع کیا جائے گا۔

اس منصوبے میں چار کیننگ یونٹس کی تخلیق اور مشروم کے کاشتکاروں میں 60 سولر ڈرائر کی تقسیم کے ذریعے خراب ہونے والی اجناس کی قدر میں اضافے پر بھی توجہ دی گئی ہے۔

 اس کے علاوہ تحقیق اور ترقی کے لیے 2.1 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اس کے تحت دواؤں کی کھمبیوں کے فروغ اور کھمبیوں کی نئی اقسام متعارف کرانے پر بھی زور دیا جائے گا۔ اس میں مقامی طور پر دستیاب ذیلی ذخائر کی معیاری کاری اور ان

 کی بہترین نشوونما کے لیے حالات کی دستاویزات پر بھی خاص زور دیا جائے گا۔ مجموعی طور پر، جموں و کشمیر میں مشروم کا شعبہ بے مثال ادارہ جاتی اور سرمائے کی مدد کی صورت میں ایک بحالی کا مشاہدہ کرنے والا ہے جو پیداوار، پیداواری صلاحیت کے ساتھ ساتھ یو ٹی سے مشروم کی برآمد کو بھی فروغ دے گا۔

Recommended