نئی دہلی،07 ستمبر ،2021 / نائب صدر جمہوریہ جناب وینکیا نائیڈو نے آج آنکھوں کے عطیے کے بارے میں کہاوتوں اور جھوٹے عقیدوں کو دور کرنے کے لیے کہا اور لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے مشہور شخصیتوں کو شامل کر کے ہر ریاست میں مقامی زبانوں میں بڑے پیمانے پر ملٹی مڈیا مہم شروع کرنے کی تجویز رکھی۔
آنکھوں کے عطیے سے متعلق 36ویں 15 روزہ تقریبات میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے عطیہ دہندگان کے کورنیا ٹیشو کی مانگ اور سپلائی کے درمیان بڑے فرق کا ذکر کیا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا ‘‘یہ افسوس کی بات ہے کہ بہت سے لوگ کورنیا نابینائی سے اس لیے محروم ہیں کیونکہ منتقلی کے لیے ڈونر کورنیا ٹیشوز کی قلت ہے ۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ آنکھوں کے عطیے کی اہمیت کے بارے میں لوگوں میں بیداری میں اضافہ کیا جائے۔’’
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ بہت سے لوگ کہاوتوں اور جھوٹے عقیدوں کی وجہ سے اپنے کنبے کے فوت شدہ ارکان کی آنکھیں عطیہ دینے کے لیے آگے نہیں آرہے ہیں، جناب نائیڈو نے کہا کہ لوگوں کو بتایا جانا چاہیے کہ اُن کی آنکھوں کے عطیے کا ایک باوقار کام یہ ہوگا کہ لوگ اپنی بینائی کو واپس پا کر اس خوبصورت دنیا کا نظارہ کر سکیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ‘‘اگر ہم پر اپنی آنکھیں عطیہ کرنے کا عزم کر لیں تو ہم کورنیا کی منتقلی کے لیے منتظر تمام لوگوں کا علاج کر سکیں گے۔ لہذا یہ ایک قابل حصول مقصد ہے اور ہمیں اسے حاصل کرنے کے لیے انتھک کوشش کرنی چاہیے۔ ’’
نائب صدر جمہوریہ نے بیداری میں اضافہ کر کے ڈونر ٹیشوز کے لیے سہولتیں پیدا کر کے اور اس کی مساویانہ تقسیم کو یقینی بنا کر اس کی مانگ اور سپلائی کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے لیے ایک منظم آنکھوں کی بینکنگ کے نظام کی ضرورت پر زور دیا۔
اس بات کو دوہراتے ہوئے کہ ‘ اشتراک کرو اور دیکھ بھال کرو ’ بھارتی فلسفے کی بنیاد ہے، انہوں نے کہا ‘‘ہماری ایک ایسی ثقافت ہے جس میں شیبی اور ددھیچی جیسے بادشاہوں اور سنتوں نے اپنے جسم وں کا عطیہ دیا تھا۔ ہمارے سماج کی بنیادی اقدار ،نظریات اور سنسکاروں کی ، یہ مثالیں ہیں۔ ’’ انہوں نے لوگوں میں جذبہ پیدا کرنے اور اعضاء کے عطیے کو فروغ دینے کے لیے جدید ضمن میں ان اقدار اور بینائی کی نئے سرے سے تعریف بیان کرنے کے لیے کہا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ‘‘ کسی عضو کا عطیہ دے کر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو مزید بھرپور زندگی جینے میں مدد دیتا ہے بلکہ وہ دوسروں کے لیے بھی ایک مثال پیش کرتا ہے کہ وہ سماج کی بڑے پیمانے پر بھلائی کے تئیں کام کریں۔’’
اس بات کا اشارہ دیتے ہوئے کہ وبا کی وجہ سے کورنیا کو محفوظ کرنے پر بندشیں عائد کی گئیں اس کی وجہ سے کورنیا کی منتقلی کے لیے درکار ٹیشوز کی قلت ہو گئی ، جناب نائیڈو نے کہا کہ اس ٹیشو کی دستیابی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ٹیشوز کے طویل مدتی تحفظ اور متبادل سرجیکل طریقوں جیسے اختراعی اقدامات ، جن میں ڈونر ٹیشو کی ضرورت نہیں ہوتی ان پر غور و خوض کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ‘‘جیساکہ کووڈ – 19 سے متعلق ہماری سمجھ میں بہتری آئی ہے ہمیں آنکھوں کی بینکنگ اور ٹیشو کا تحفظ کرنے سے متعلق رہنما خطوط کو بہتر بنانے کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ ’’
یہ اظہار خیال کرتے ہوئے کہ دیہی آبادی کا ایک بڑا حصہ آنکھوں کی کوالٹی دیکھ بھال سے محروم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے بہت سے لوگ پرائیویٹ اسپتالوں میں زیادہ مہنگا علاج برداشت نہیں کر سکتے۔ ‘‘لہذا ہمیں اپنے نجی شعبے کو آنکھوں کی دیکھ بھال کے ایسے اسپتالوں سے لیس کرنا چاہیے جن میں کوالٹی علاج فراہم کرنے کے لیے جدید ترین ٹکنالوجی ہو۔ آنکھوں کے پرائیویٹ اسپتالوں کو دیہی علاقوں میں ذیلی مرکز کھولنے چاہئیں اور کم لاگت پر دیہی آبادی میں آنکھوں کی جدید دیکھ بھال کے فائدے پہنچانے چاہئیں۔ ’’
جناب نائیڈو نے بچوں کے جدید آلات کے زیادہ استعمال اور اس کی آنکھوں پر اس کے اثرات کے معاملے کو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل آلات کے بچوں کے استعمال کے بارے میں ضابطے بنائے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے والدین اور اساتذہ سے اپیل کی کہ وہ اِن آلات کے زیادہ استعمال سے اور ٹکنالوجی کی لت سے بچوں کو دور رکھیں ۔
نائب صدر جمہوریہ نے آنکھوں کے قومی بینک میں ایک ٹیم کی تعریف کی کہ اس نے پچھلی پانچ دہائیوں میں کورنیا کی نابینائی سے متاثرہ ہزاروں لوگوں کو بینائی بخش کر بااختیار بنایا ہے۔
ایمز نئی دلی کے ڈائریکٹر پروفیسر رندیپ گلیریا ، ایمز نئی دلی کے آنکھوں کے علوم سے متعلق آر پی مرکز کے سربراہ پروفیسر جیون ایس تیتیال ، نیشنل آئی بینک کی ساتھی چیئر پرسن پروفیسر رادھیکا ٹنڈن، نیشنل آئی بینک کی آفیسر انچارج پروفیسر نرمتا شرما ، نیشنل آئی بینک کی آفیسر انچارج ایم ونتھی، ایمز کے فیکلٹی اور اسٹاف کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر منپریت کور اور عطیہ دہندگان کے کنبے اور غیر سرکاری تنظیموں نیز آنکھوں کے بینکوں کے نمائندگان نے اس میں اس میں شرکت کی۔