<h3 style="text-align: center;">پاکستان کس طرف جارہا ہے؟</h3>
<p style="text-align: right;">پاکستان جمہوری تحریک 16 /اکتوبر کو گوجرانوالہ سے اپنی احتجاجی ریلیوں کے لیےتیار ہے ۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ احتجاج پاکستان میں برسر اقتدار حکومت کے خلاف سیاسی محاذ آرائی ہے ۔20ستمبر کو لندن سے اپوزیشن کی طرف سے منعقدہ کل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے مکمل عزم سے برسر اقتدار پارٹی کے خلاف صف بندی شروع کردی ہے۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ جس طرح موجودہ حکومت پاکستانیوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں، ملک میں جس طرح مہنگائی اور بیروزگار بڑھی ہے، اس طرف حکومتِ پاکستان توجہ دینے کے بجائے فوج اور عدلیہ کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ جمہوری حکومت میں ریاست سب سے اوپر ہے۔ ہم میں سے کوئی شخص ریاست کے بالاتر نہیں ہوسکتا ، اب وقت آگیا ہے کہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے۔</p>
<p style="text-align: right;">حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی تقریر کو پاکستانی ٹیلی ویژن چینلز پر نشر کرنے کی اجازت تھی لیکن ان کی تقریر نشر نہ ہوکرالٹا عدالت نے انہیں مفرور قرار دے دیا اور اس کے بعد پاکستانی الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے بھی نواز شریف کی تقریر پر پابندی عائد کردی گئی۔پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ نے 26 نکاتی قرارداد جاری کی ہے جس میں وزیر اعظم عمران خان کا استعفی اور تازہ انتخابات کا مطالبہ کیا گیاہے۔ساتھ ہی عوامی سطح پر احتجاج کے لیے ایک پروگرام کا بھی اعلان کیا گیا ہے جو دسمبر کےاخیر تک جاری رہ سکتا ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ اسلام آباد تک پیدل مارچ بھی کر سکتی ہے۔قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی ملتوی کرنے کا ارادہ ہے تاکہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات جو پاکستان تحریک انصاف کی اکثریت کی تصدیق کرسکتے ہیں ، منعقد نہ ہوسکے۔</p>
<p style="text-align: right;">قومی احتساب بیورو کی جانب سے 28 ستمبر کو بدعنوانی کے الزام میں میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد ، پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی طرح کے سمجھوتے سے انکار کیا گیا ہے ۔مریم نوازبھی متعددبدعنوانیوں کی وجہ سے اپنی گرفتاری سے دوچار ہیں۔دل چسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کے پاس کھونے کے لیے اور کچھ نہیں بچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ اپنے کارکنوں کے ساتھ مل کر سڑکوں پر سخت احتجاجی مظاہرے کے لیے تیار ہیں۔یہ بھی دل چسپ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو اس تحریک کا قائد نامزد کیا گیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے کارکن نظریاتی طور پربہت متحد ہیں ۔ امید کی جارہی ہے کہ بڑی تعداد میں جمیعت علمائے اسلام کے کارکنان سڑکوں پر نکل سکتے ہیں۔مولانا فضل الرحمان پاکستان تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان کا سخت مخالف ہے۔فضل الرحمان نے پہلے ہی تنبیہ کردیاتھا کہ پیدل مارچ کے ذریعے ہم سب حکومت کی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کریں گے، پھر حکومت کا تختہ پلٹ کر ہی دم لیں گے۔اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کس حد تک سڑک پر کھڑے رہ سکتے ہیں۔ کارکنان کی طرف سے گرفتاریاں دینے کی تیاری یقینا ً پنجابی اور پختون دونوں ہی پاک حکومت اور فون کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔</p>
<p style="text-align: right;">پیپلز پارٹی آف پاکستان واحد ایسی سیاسی پارٹی ہے جو تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد میں ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی آف پاکستان برسر اقتدار بھی ہے۔یکم اکتوبر کو سما ٹی وی پر ندیم ملک کے ساتھ ایک گھنٹہ طویل انٹرویو میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے الزام لگایا کہ نواز شریف فوج کے مقدس ادارے کو پامال کر کے ہندستان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔مزید کہا کہ اب بدعنوان سیاستدانوں کے احتسابی کا وقت آچکا ہے تاہم عاصم باجوہ جیسے بدعنوان ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف پاکستانی وزیر اعظم نے خاموشی اختیار کرنے ہی میں اپنی بھلائی سمجھی۔اس وقت کے انٹلی جنس کے سربراہ ، لیفٹیننٹ جنرل ظہور الاسلام کی طرف سے وزیر اعظم کے عہدے سے دستبرداری کے لیے نواز شریف کے الزام کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے ، عمران خان نےبڑی بے شرمی سے کہا کہ چوں کہ میں منتخب وزیر اعظم ہیں ، اگر کسی کو سوال پوچھنے کا شوق ہوتو وہ مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔</p>
<p style="text-align: right;">عمران خان نے جمعہ یعنی 9 اکتوبر کو اسلام آباد میں قانون انصاف فورم سے خطاب کرتے ہوئے سابقہ حکومتوں پر الزام لگایا کہ وہ آئی ایس آئی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ اس ناکامی میں بدعنوانی کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔آج کے پاکستان کے بارے میں عمران خان کا دعوی ہے کہ ’’ اب پاکستان ایک جمہوری ملک ہے‘‘</p>
<p style="text-align: right;">مزے کی بات یہ ہے کہ 5 اکتوبر کی رات جب شاہدرہ ، لاہور میں پی ٹی آئی کے کارکن بدر رشید کی شکایت پر نواز شریف ، شہید خاقان عباسی ، مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کے 43 رہنماؤں اور تین ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جرنل قیوم ، ترمذی اور عبد القادر بلوچ کے ساتھ پاک مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدرپر بغاوت اور مجرمانہ سازش کے الزام میں ایف آر آئی درج کرائی گئی۔پی ٹی آئی کے وزیر فواد چوہدری نے وزیر اعظم کی طرف سے اس رپورٹ پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ وزیر داخلہ اعجاز شیخ نے بعد میں یہ واضح کیا کہ ان کی حکومت اپوزیشن کے خلاف بغاوت کے الزامات کے لیے نہیں بنی ہے۔اس وضاحت کے بعد ہفتہ یعنی 10 /اکتوبر کو نواز شریف اوردیگر تمام افراد کے خلاف ایف آئی آر واپس لیے گئے۔عمران خان کی شرمندگی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب ریٹائرڈ ڈائرکٹریکٹر جنرل ، وفاقی تحقیقاتی ادارہ ، بشیر میمن ، جوایک دیانتدار پولیس افسر ہیں ، نے حال ہی میں صحافی مطیع اللہ جان کے ٹیلی ویژن چینل پر ایک سنسنی خیز انٹرویو میں دعوی کیا ہے کہ انہیں عمران خان نے بلایا تھا۔ اور مسلم لیگ (ن) کے سیاستدانوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کرنے کے لیے کہاتھا ۔ مقدمات درج نہ کرنے کی وجہ انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیاتھا۔پاکستان میں بے شمار عوامی مسائل ہیں اگر اپوزیشن ان نکات پر عوام کو بیکار کرنے میں کامبا ب ہوجاتی ہے تو یقینا ً اپوزیشن کی ایک بڑی کامیابی ہوگی۔</p>
<p style="text-align: right;">حزب اختلاف کی طرف سے عمران خان سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ نیب کے ذریعے اپوزیشن کے خلاف من مانیاں بند کریں، اگر عمران نے انکار کردیا تو پاک فوج کے ساتھ قومی و صوبائی اسمبلیاں عمران کی راہ میں روکاوٹ بن سکتے ہیں۔اگر یہ سب کچھ ناکام ہو جاتا ہے تو فوج براہ راست قدم اٹھا سکتی ہے ۔ حالاں کہ اس بار امریکہ اورسعودی عرب سمیت پاکستان کے بین الاقوامی امداد دہندگان کی طرف سے کوئی منظوری ملنے کے امکانات نہیں ہے ۔ غیرملکی امداد ہی مستقبل میں پاک کو مستحکم بنا سکتا ہے ورنہ پاک دن بہ دن کمزور ہوتاجائے گا۔ پاکستان کے سامنے بے شمار مسائل ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن کس حد تک اپنی ذمہ داری نبھانے میں کامیاب ہوگی یہ تو احتجاجی مظاہرہ ہی طے کرے گا۔</p>
<p style="text-align: right;"></p>.