Urdu News

تامل ناڈو میں ویرپن کی بربریت کی داستانیں آج بھی کیوں ہیں زندہ؟

بد نام زمانہ ڈاکو ویرپن

 اکتوبر18 کی تاریخ ملکی اور دنیا کی تاریخ میں تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔یہ تاریخ بھارتی سیکورٹی اہلکاروں کے لئے کسی بڑے دن سے کم نہیں ہے۔

در اصل سیکورٹی اہلکاروں کے لئے سر درد بنا رہا صندن اور ہاتھی دانت کی اسمگلنگ کے لئے بد نام زمانہ ڈاکو ویرپن 18اکتوبر2004کو ہی تصادم میں مارا گیا تھا۔

گھنی مونچھوں والے ویرپن تقریباً دو دہائیوں سے سیکورٹی فورسز کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ سیکڑوں ہاتھیوں کو مارنے اور کروڑوں روپے کی صندل کی لکڑی اسمگل کرنے والے ویرپن نے 150 سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کیا۔

ان میں نصف سے زیادہ پولیس اہلکار تھے۔ اسے مردہ یا زندہ پکڑنے کے لیے ملک کی کئی ریاستوں کی پولیس اور سیکورٹی فورسز نے جنگل کی خاک چھانی۔

تامل ناڈو میں ویرپن کی بر بریت کی کہانیاں ابھی تک زندہ ہیں۔ 18 جنوری 1952 کو پیدا ہونے والے ویرپن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 17 سال کی عمر میں پہلی بار ہاتھی کا شکار کیا تھا۔ اس کے پاس ہاتھی کو مارنے کی تکنیک تھی۔

وہ ماتھے کے بیچ میں گولی مارتا تھا۔ ایسی کئی کہانیوں میں انڈین فاریسٹ سروس کے افسر پی سری نواس کا بھی ذکر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ویرپن نے پہلے افسر کا سر قلم کیا، پھر اپنے ساتھیوں کے ساتھ فٹ بال کھیلا۔ یہ وہی سری نواس تھا جس نے پہلی بار ویرپن کو گرفتار کیا تھا۔

گرفتاری کے بعد ویرپن نے سیکورٹی اہلکاروں کو بتایا کہ اس کے سر میں شدید درد ہے۔ لہٰذا اسے تیل دیا جائے جسے وہ اپنے سر پر لگا سکے۔ اس نے وہ تیل سر پر لگانے کے بجائے اپنے ہاتھوں میں لگایا۔

چند ہی منٹوں میں اس کی کلائیاں ہتھکڑیوں سے نکل آئیں اور وہ فرار ہو گیا۔ ویرپن کے ظلم کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ اس نے پولیس سے بچنے کے لیے اپنے ہی شیر خوار بچے کی جان لے لی۔

ویرپن کی ایک لڑکی 1993 میں پیدا ہوئی تھی۔ ایک بار ویرپن  اس کے  رونے کی وجہ سے مشکل میں پڑ گیا۔ ویرپن اپنے 100 سے زیادہ ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں چھپا ہوا تھا۔ پولیس اسے ڈھونڈ رہی تھی۔

جنگل میں لڑکی کے رونے کی آواز سن کر پولیس اسے پکڑ لیتی۔ جس کی وجہ سے ویرپن نے اپنی ہی بیٹی کا گلا دبا کر قتل کر دیا تھا۔ اس کے بعد اسے زمین  میں دفن کر دیا۔

ویرپن نے ایک بار کنڑ کے معروف اداکار کو بھی اغوا کیا تھا۔ ویرپن نے 2000 میں جنوبی ہند کے مشہور اداکار راج کمار کو اغوا کیا تھا۔  راج کمار 100 سے زیادہ دنوں تک ویرپن کے چنگل میں رہے۔

اس دوران ویرپن نے کرناٹک اور تمل ناڈو کی حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ اور موٹی رقم لے کر اداکار کو چھوڑ دیا۔ کئی دہائیوں تک ویرپن نے چندن اور ہاتھی دانت کی اسمگلنگ سے کروڑوں روپے کمائے۔ اس رقم سے خطرناک ہتھیار خریدیں۔ ملک کی حکومت نے ویرپن کو پکڑنے کے لیے 734 کروڑ روپے خرچ کیے تھے۔

ویرپن کو اپنی مونچھیں بہت پسند تھیں۔ اس کی مونچھیں اس کی شناخت بن چکی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی  آنکھ خراب   تھی۔ اپنی مونچھوں پر خجاب لگاتے ہوئے اس کے چند قطرے ویرپن کی آنکھ میں گرے تھے۔

اپنی آنکھوں کے علاج کے لیے اسے دو ساتھیوں سمیت پاپڑپتی کے جنگل سے باہر آنا پڑا۔ انٹیلی جنس ذرائع سے اس کی اطلاع تمل ناڈو ایس ٹی ایف کے ہاتھ لگی جو اسے پکڑنے کے لیے آپریشن کر رہی تھی۔

اس کے بعد ایک منصوبہ بندی کے تحت ایس ٹی ایف نے ایک ایمبولینس جنگل میں بھیجی۔ اس پر سلیم اسپتال لکھا ہوا تھا۔ ویرپن اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایمبولینس میں سوار ہو کر ایس ٹی ایف کے جال میں پھنس گیا۔

ایس ٹی ایف نے ٹرک کو ایمبولینس کے لیے اسپتال لے جانے کے راستے میں کھڑا کر دیا۔ اس میں ہتھیاروں سے لیس ایس ٹی ایف کے 22 اہلکار موجود تھے۔

جیسے ہی ایمبولینس قریب آئی ایس ٹی ایف نے اسے ہاتھ دے کر روکا اور ویرپن کو مائیک پر ہتھیار ڈالنے کو کہا گیا۔ اسی دوران ایمبولینس کو چلا رہا  ایس ٹی ایف کا خفیہ جوان  گاڑی سے نیچے اتر گیا۔

اس کے بعد ویرپن اور اس کے ساتھیوں نے ایمبولینس کے اندر سے فائرنگ شروع کر دی۔ موقع ملتے ہی ایس ٹی ایف نے ایمبولینس کے اندر گرنیڈ پھینکا اور سپاہیوں نے فائرنگ شروع کردی۔ ویرپن کے سر میں گولی لگی اور وہ مر گیا۔ اس کے تین ساتھی گولیاں چلاتے رہے اور بالآخر مارے گئے۔

Recommended